کتاب: تبرکات - صفحہ 173
اور اس کے پڑھنے اور اس کے استعمال کرنے و درود بنانے کو سخت قبیح و مکدر جانتے ہیں اور بعض اشعار کو قصیدہ بردہ میں شرک وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، مثلاً: یَا أَشْرَفَ الْخَلْقِ مَا لِي مَنْ أَلُوْذُ بِہٖ سِوَاکَ عِنْدَ حَلُوْلِ حَوَادِثِ الْعَمَمٖ اے افضل مخلوقات، میرا کوئی نہیں جس کی پناہ پکڑوں ،بجز تیرے بروقت نزولِ حوادث۔۔۔ حالانکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اپنے متعلقین کو دلائل الخیرات وغیرہ کی سند دیتے ہیں اور ان کو کثرت ِدرود و سلام و تحزیب و قراء ت ِدلائل وغیرہ کا امر فرماتے رہے ہیں ۔ہزاروں کو مولانا گنگوہی، مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما نے اجازت فرمائی اور مدتوں خود بھی پڑھتے رہے ہیں اور مولانا نانوتوی مثل شعر بردہ پڑھتے تھے: مدد کر اے کرمِ احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار جو تُو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا بنے گا کون ہمارا تیرے سوا غم خوار حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب مرحوم و مغفور دیوبندی نے فہم عوام کے واسطے قصیدہ بردہ کی اردو شرح فرمائی اور اس کو باعث ِسعادت خیال فرمایا۔غرض ہمیشہ بہ جملہ اکابرین(آل دیوبند)سب کی قرا ء ت وغیرہ کی اجازت دیتے رہے۔‘‘ (الشہاب الثاقب، ص 245) قارئین کرام! آپ اس عبارت کو بار بار پڑھیں اور ان کے عقیدئہ توحید کی اصلیت کو پہچانیں ، یہ حضرات بھی مخلوق سے مدد مانگنا، مشکل میں غیراللہ کو پکارنا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فریاد