کتاب: تبرکات - صفحہ 172
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
إِنِّي وَاللّٰہِ، مَا سَأَلْتُہٗ لِأَلْبَسَہٗ، إِنَّمَا سَأَلْتُہٗ لِتَکُونَ کَفَنِي، قَالَ سَہْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَہٗ ۔
’’اللہ کی قسم!میں نے یہ چادر پہننے کے لیے نہیں مانگی۔میں نے تو(حصولِ تبرک کی غرض سے)اس لیے مانگی ہے تاکہ یہ مبارک چادر میرا کفن بنے۔سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : چنانچہ وہ مبارک چادر ان کا کفن ہی بنی۔‘‘
(صحیح البخاري : 1277)
قصیدہ بردہ کے بارے میں تنبیہ بلیغ :
محمد بن سعید بوصیری (696ھ) نے اپنے ایک خواب کی بنیاد پر قصیدہ بردہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کی تعریف) لکھا تھا۔ یہ بوصیری جھوٹا تھا۔ اس کے بیان کردہ خواب کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس قصیدہ میں بعض اشعار شرکیہ اور کفریہ ہیں ۔جو لوگ عقیدئہ محدثین سے بیزار ہیں ، وہ بڑی چاہت و اہتمام کے ساتھ اسے پڑھتے اور سنتے ہیں ۔
مولاناحسین احمد مدنی صاحب (1377ھ)لکھتے ہیں :
’’انہی افعالِ خبیثہ واقوالِ واہیہ کی وجہ سے اہل عرب کو ان(محمد بن عبدالوہاب اور ان کے ساتھیوں )سے نفرت بے شمار ہے۔محمد بریلوی اور ان کے اتباع نے جب ان بزرگوارانِ دین کو وہابیت کی طرف منسوب کیا،توان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ حضرات(دیوبندی) بھی وہابیہ کے پورے موافق ہیں ،مگر حقیقت الحال سے ان کو اطلاع ہی نہیں ،ورنہ یہ لوگ بھی پوری طرح عقائد میں ان بزرگواروں کے موافق۔وہابیہ کثرت ِصلاۃ و سلام، درود ِخیر الانام رحمہ اللہ اور قراء تِ دلائل الخیرات،قصیدہ بردہ و قصیدہ سمزہ(یہ دونوں بوصیری کے ہیں )وغیرہ