کتاب: تبرکات - صفحہ 156
مِنْہُ، وَأَفْرِغَا عَلٰی وُجُوہِکُمَا وَنُحُورِکُمَا وَأَبْشِرَا‘، فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلاَ، فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ مِنْ وَّرَائِ السِّتْرِ : أَنْ أَفْضِلاَ لِأُمِّکُمَا، فَأَفْضَلاَ لَہَا مِنْہُ طَائِفَۃً ۔
’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی شخص آیا اور کہنے لگا : کیا آپ میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کریں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خوش خبری لو۔اس نے کہا : آپ مجھے بہت زیادہ خوش خبریاں دے چکے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس نے خوش خبری واپس کر دی ہے،آپ دونوں اسے قبول کر لیں ۔ہم نے عرض کیا : ہم نے قبول کر لی ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پانی والا پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھوں اور چہرۂ مبارک کو دھویا،نیز اس میں کُلی فرمائی۔پھر فرمایا : آپ دونوں اس پانی کو پییں ،اپنے چہروں اور سینوں پر بہائیں اور خوش ہو جائیں ۔دونوں نے پیالہ پکڑا اور ویسا ہی کیا۔اسی اثنا میں پردے کے پیچھے سے سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے پکار کر کہا : اپنی ماں کے لیے بھی یہ پانی بچانا،چنانچہ انہوں نے کچھ پانی بچا لیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 4328، صحیح مسلم : 2497)
3. سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّۃٍ حَمْرَائَ مِنْ أَدَمٍ،