کتاب: تبرکات - صفحہ 143
نیز فرماتے ہیں : لَیْسَ بِثِقَۃٍ ۔ ’’یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘ (سِیَر أعلام النُّبَلاء : 9/389) ٭ اسے حافظ سیوطی نے بھی ’’متہم‘‘کہا ہے۔ (اللّـآلي المصنوعۃ : 1/96) ٭ فضائل التّسمیۃ لابن بکیر(4)والی روایت من گھڑت ہے۔ عبداللہ بن احمد بن عامر طائی اور اس کے باپ احمد بن عامر طائی دونوں کا حال بیان ہو چکا ہے۔یہ روایت انہی دونوں کی کار روائی ہے۔ یوں یہ روایت ناقابل اعتبار ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ اسے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’غیر محفوظ‘‘کہا ہے۔ (الکامل في ضُعَفاء الرِّجال : 1/140) دلیل نمبر 8 ٭ محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں : ’مَا ضَرَّ أَحَدَکُمْ لَوْ کَانَ فِي بَیْتِہٖ مُحَمَّدٌ وَمُحَمَّدَانِ وَثَلَاثَۃٌ‘ ۔ ’’اگر تم میں سے کسی ایک کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد نامی شخص ہوں گے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 5/54) روایت ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ عثمان عمری صحابی نہیں ، براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔ دلیل نمبر 9 ٭ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’مَا أُطْعِمَ طَعَامٌ عَلٰی مَائِدَۃٍ، ولاَ جُلِسَ عَلَیْہَا، وَفِیہَا اسْمِي؛ إِلاَّ قُدِّسُوا کُلَّ یَوْمٍ مَّرَّتَیْنِ‘ ۔