کتاب: تبرکات - صفحہ 142
دلیل نمبر 7
٭ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَشُورَۃٍ مَّعَہُمْ رَجُلٌ، اسْمُہٗ مُحَمَّدٌ، وَلَمْ یُدْخِلُوہُ فِي مَشُورَتِہِمْ؛ إِلَّا لَمْ یُبَارَکْ لَہُمْ فِیہَا‘ ۔
’’جو قوم مشورے کے لیے جمع ہوتی ہے اور ان میں کوئی محمد نامی شخص ہو اور وہ اسے مشورے میں شریک نہ کریں ، تو اس مشورے میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘
(فضائل التّسمیۃ لابن بکیر : 9، مُوَضِّح أوہام الجمع والتّفریق للخطیب : 1/446)
سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ احمد بن حفص جزری کون ہے؟معلوم نہیں ۔
ایک سند میں احمد شامی کے نام سے مذکور ہے۔
٭ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرُ الْحَدِیِثِ، وَ لَیْسَ بِالْمَعْرُوْفِ ۔
’’یہ منکر الحدیث اور غیر معروف شخص ہے۔‘‘
(الکامل في ضُعَفاء الرِّجال : 1/141)
٭ دیلمی کی سند میں احمد بن جعفر حرانی کا ذکر ہے۔
٭ (اللآّلي المصنوعۃ للسّیوطي : 1/96) میں ’’مجہول‘‘راوی موجود ہے۔
٭ تاریخ ابن النجار میں بھی اس بارے میں ایک موضوع سند مذکور ہے۔اس کے راوی ابوبکر محمد بن احمد بن محمد حفید کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہُوَ مُتَّہَمٌ ۔’’اس کو روایت ِحدیث میں مورد ِالزام ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 3/461)