کتاب: تبرکات - صفحہ 141
4. اس کے باپ سمیت سب کی توثیق درکار ہے۔ ٭ تیسری سند مسندبزار(کشف الأستار : 2/413، ح : 1988) میں آتی ہے۔ یہ بھی سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔ 1. غسان بن عبیداللہ راسبی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ 2. یوسف بن نافع بن عبداللہ بن نافع’’مجہول الحال‘‘ ہے، اسے صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات : 9/281 ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ دلیل نمبر 6 ٭ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’إِذَا سَمَّیْتُمُوْہُ مُحَمَّدًا؛ فَلاَ تُجَبِّہُوْہُ، وَلَا تُحَرِّمُوْہُ، وَلَا تُقَبِّحُوْہُ، بُوْرِکَ فِي مُحَمَّدٍ، وَفِي بَیْتٍ فِیْہِ مُحَمَّدٌ، وَمَجْلِسٍ فِیْہِ مُحَمَّدٌ‘ ۔ ’’جب تم بچے کا نام محمد رکھو،تو نہ اس کے ساتھ سختی کرو،نہ اس کی تنقیص کرو اور نہ اس کی برائی بیان کرو۔نیز محمد نام ،جس گھر میں محمد نامی بچہ ہو اور جس مجلس میں محمد نامی شخص ہو، اس میں برکت ہو گی۔‘‘ (الغرائب الملتقطۃ لابن حجر : 1/697) جھوٹی روایت ہے۔ 1. سفیان بن وکیع جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔ 2. سفیان بن ہارون قاضی کی توثیق نہیں ۔ 3. ابو الزبیر ’’مدلس‘‘ہیں ، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ 4. یحییٰ بن محمد بن یحییٰ نہاوندی کے حالات زندگی نہیں ملے۔