کتاب: تبرکات - صفحہ 140
جھوٹی روایت ہے۔
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’منکر المتن‘‘قرار دیا ہے۔
(سیر أعلام النُّبَلاء : 9/386)
٭ نیز فرماتے ہیں :
عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِيٍّ الرَّضَا، عَنْ آبَائِہٖ، بِتِلْکَ النُّسْخَۃِ الْمَوْضُوْعَۃِ الْبَاطِلَۃِ، مَا تَنْفَکُّ عَنْ وَّضْعِہٖ أَوْ وَضْعِ أَبِیْہِ ۔
’’عبداللہ بن احمد بن عامر، اپنے باپ،علی رضا اور ان کے آباو اجداد سے یہ من گھڑت اور جھوٹا نسخہ بیان کرتا ہے،جو یا تو اس کی اپنی گھڑنتل ہے یا اس کے باپ کی۔‘‘
(میزان الاعتدال : 2/390)
٭ عبداللہ بن احمد بن عامر کے متعلق حسن بن علی زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
کَانَ أُمِّیًّا، لَمْ یَکُنْ بِالْمَرْضِيِّ ۔
’’وہ ایک جاہل اور غیر معتبر شخص تھا۔‘‘
(سؤالات السّہمي للدّارقطني : 339، تاریخ بغداد للخطیب : 9/394)
٭ اس روایت کی ایک سند تاریخ بغداد(3/90) میں آتی ہے۔
لیکن یہ سند بھی جھوٹی ہے۔
1. ابواسماعیل علی بن حسین
2. حسین بن حسن
3. محمد بن قاسم اور