کتاب: تبرکات - صفحہ 14
ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک درخت کی برکت ایسی ہے جیسے مسلمان کی برکت ہوتی ہے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہر مسلمان میں برکت ہوتی ہے۔صحیح بخاری ہی میں سیدنا اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے :(انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہونے کی وجہ سے آیت ِ تیمم کے نزول پرفرمایا:)اے آلِ ابو بکر! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں ۔یہ وہی برکت ہے،جسے ہر مسلمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور آلِ ابوبکر کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔یہ عمل والی برکت ہے اور یہی برکت ایمان،علم،دعوت اور عمل کی طرف لے کر جاتی ہے۔لہٰذا ہر مسلمان میں برکت موجود ہوتی ہے،لیکن یہ برکت ذاتی نہیں ہوتی،بلکہ عمل کی اور مسلمان میں موجود اسلام و ایمان اور اس کے دل میں موجود یقین،اللہ تعالیٰ کی تعظیم،اس کے جلال اور اتباعِ رسول کی برکت ہوتی ہے۔یہی برکت ہے جو علم،عمل اور نیکی میں ہوتی ہے، یہ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتی۔اسی بنا پر نیک لوگوں سے تبرک کا معنیٰ یہ ہے کہ نیکی میں ان کی اقتدا کی جائے،اہل علم سے تبرک کا معنی یہ ہو گا کہ ان سے علم حاصل کیا جائے اور استفادہ کیا جائے۔ان سے اس طرح تبرک لینا جائز نہیں کہ ان کو چھوا جائے یا ان کے لعاب سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ اس امت کی سب سے بزرگ ہستیاں صحابہ کرام ہیں ، انہوں نے اس امت کی بزرگ ترین ہستیوں ، سیدنا ابو بکروعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے ایسا تبرک حاصل نہیں کیا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مشرکین کے تبرک کی یہی صورت تھی کہ وہ اپنے معبودوں کی طرف توجہ کر کے کثرت ِ خیر،دوامِ