کتاب: تبرکات - صفحہ 139
گا کہ اس کا نام بھی محمد ہے۔مگر محمد نام کی برکت کی وجہ سے کسی کو(جنت جانے سے)روکا نہیں جائے گا۔‘‘
(اللآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ : 1/97)
جھوٹی روایت ہے۔
٭ حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہٰذَا مُعْضَلٌ، سَقَطَ مِنْہُ عِدَّۃُ رِجَالٍ ۔
’’یہ سندمعضل(منقطع)ہے،اس سے کئی ایک راوی گر گئے ہیں ۔‘‘
اس میں اور کئی خرابیاں بھی ہیں ۔
٭ ابن عراق کنانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قَالَ بَعْضُ أَشَیَاخِي : ہٰذَا حَدِیْثٌ مَّوْضُوْعٌ بِلَا شَکٍّ ۔
’’میرے بعض اساتذہ نے فرمایا : یہ حدیث بلا شبہ من گھڑت ہے۔‘‘
(تنزیہ الشّریعۃ : 1/226)
دلیل نمبر 5
٭ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إِذَا سَمَّیْتُمُ الْوَلَدَ مُحَمَّدًا؛ فَأَکْرِمُوہُ وَأَوْسِعُوا لَہُ الْمَجْلِسَ، وَلَا تُقَبِّحُوا لَہٗ وَجْہًا ۔
’’جب تم کسی بچے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزت کرو،اس کے لیے مجلس کشادہ رکھو اور اس کے چہرے کے عیوب بیان نہ کرو۔‘‘
(فضائل التّسمیۃ لابن بکیر : 26)