کتاب: تبرکات - صفحہ 137
کرنے کا حکم فرمائے گا۔اس پر وہ دونوں کہیں گے :ہمارے ربّ!ہم جنت میں داخل ہونے کے حق دار کیسے ہوئے،حالانکہ ہم نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا،جس کے بدلے میں تُو ہمیں جنت دیتا؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میرے ان دونوں بندوں کو جنت میں داخل کر دو، کیونکہ میں نے اپنے آپ پر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں نہیں جائے گا،جس کا نام محمد یا احمد ہو گا۔‘‘
(فضائل التّسمیۃ لابن بکیر : 1)
جھوٹی روایت ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیْثٌ لاَّ أَصْلَ لَہٗ ۔
’’اس روایت کی کوئی اصل نہیں ۔‘‘ (الموضوعات : 1/157)
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو باطل قرار دے کر اس کے راوی احمد بن نصر بن عبد اللہ ذارع کے بارے میں کہتے ہیں :
ذَاکَ الْکَذَّابُ ۔ ’’یہ جھوٹا شخص ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 2/313)
٭ صدقہ بن موسیٰ بن تمیم کے متعلق خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا الشَّیْخُ مَجْہُوْلٌ، وَقَدْ رَوٰی عَنْہُ الذَّارِعُ أَحَادِیْثَ مُنْکَرَۃً، وَالْحَمْلُ فِیْہَا عِنْدِي عَلَی الذَّارِعِ ۔
’’یہ شیخ مجہول ہے۔ ذارع نے اس سے جھوٹی روایات بیان کر رکھی ہیں ۔ میرے نزدیک اس کار روائی کا بوجھ ذارع کے سرپر ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد : 9/333)
٭ اس کا باپ موسیٰ بن تمیم بن ربیعہ بھی ’’مجہول‘‘ہے۔