کتاب: تبرکات - صفحہ 136
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو جھوٹی اور باطل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : نُسْخَۃُ نُبَیْطٍ؛ نُسْخَۃٌ مَّوْضُوعَۃٌ بِلاَ رَیْبٍ، فَلَا تَغْتَرُّوا بِعُلُوِّہَا، فَاللُّکِّيُّ تَکَلَّمَ فِیہِ ابْنُ مَاکُولَا وَغَیْرُہٗ، وَشَیْخُہٗ أَحْمَدُ؛ أَحْسِبُہٗ ہُوَ وَاضِعُ النُّسْخَۃِ ۔ ’’نبیط کے نسخہ کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔اس کے عالی ہونے سے دھوکہ مت کھاؤ،کیونکہ لُکَّیْ کے بارے میں ابن ماکولا وغیرہ نے جرح کر دی ہے۔میرے خیال کے مطابق اس نسخے کو گھڑنے والا اس کا استاذ احمد ہے۔‘‘ (مُعجم الشّیوخ : 3/43) ٭ علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ نے اسے تذکرۃ الموضوعات(89)میں ذکر کیا ہے۔ ٭ اسی طرح ابن عراق کنانی نے تَنْزِیہُ الشَّرِیعَۃِ الْمَرْفُوعَۃِ عَنِ الْـأَخْبَارِ الشَّنِیعَۃِ الْمَوْضُوعَۃِ(226/1)میں ذکر کیا ہے۔ دلیل نمبر 3 ٭ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یُوقَفُ عَبْدَانِ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ، فَیَأْمُرُ بِہِمَا إِلَی الْجَنَّۃِ، فَیَقُولَانِ : رَبَّنَا بِمَ اسْتَأْہَلْنَا دُخُولَ الْجَنَّۃِ، وَلَمْ نَعْمَلْ عَمَلًا تُجَازِینَا بِہِ الْجَنَّۃَ ؟ فَیَقُولُ اللّٰہُ : أَدْخِلَا عَبْدَيَّ، فَإِنِّي آلَیْتُ عَلٰی نَفْسِي أَلَّا یَدْخُلَ النَّارَ مَنِ اسْمُہٗ أَحْمَدُ وَمُحَمَّدٌ‘ ۔ ’’دو آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل