کتاب: تبرکات - صفحہ 132
فَلَمْ یَنْزِلْ بِي أَمْرٌ مُّہِمٌّ غَائِظٌ؛ إِلَّا تَوَخَّیْتُ تِلْکَ السَّاعَۃَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ، فَأَعْرِفُ الْإِجَابَۃَ ۔
’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد احزاب میں تین روز سوموار،منگل اور بدھ کو مسلسل دعا مانگی۔بدھ کے دن ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان دُعا قبول ہو گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخِ انور پر بشاشت جھلک رہی تھی۔اس کے بعد جب مجھے کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوا،میں نے اس گھڑی کا انتخاب کرکے دُعا مانگی تو مجھے اس میں قبولیت کے آثار نظر آئے۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 2/56، وفي نسخۃ : 2/73، الأدب المفرد للبخاري : 704، مسند الإمام أحمد : 3/332، شعب الإیمان للبیہقي : 3874، وسندہٗ حسنٌ)
اس سے بھی بعض لوگوں نے صالحین کے اختیار کردہ اوقات کے متبرک ہونے کا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے،لیکن اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے پیش نظر یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن دُعا کرنے کے بعد اس گھڑی کو پا لیا تھا، جس میں اللہ تعالیٰ دُعا قبول فرماتا ہے۔لہٰذا انہوں نے اس گھڑی کو یاد رکھا اور اسی میں دُعا کرنے کا اہتمام کیا۔اگر تبرک والی کوئی بات سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے ذہن میں ہوتی، تو وہ دُعا کے لیے اس وقت کے ساتھ ساتھ مسجد ِاحزاب کی اس جگہ کا بھی اہتمام فرماتے، جہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دُعا کرتے دیکھا تھا۔
تنبیہ 5:
٭ ثابت بنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ أَنَسًا دَفَعَ إِلٰی أَبِي الْعَالِیَۃِ تُفَّاحَۃً؛ فَجَعَلَہَا فِي کَفِّہٖ، وَجَعَلَ