کتاب: تبرکات - صفحہ 13
اسی طرح سیدنا عیسیٰ و سیدنا موسیٰ علیہما السلام کے اجسام کو مبارک بنایا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے کسی امتی نے ان کے اجسام کو چھو کر یا ان کا پسینہ لے کر یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کی،تو یہ جائز تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اجسام کو ایسی برکت نصیب فرمائی تھی،جو آگے منتقل بھی ہوتی تھی۔اسی طرح ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بھی مبارک تھا۔ اسی لیے احادیث میں وارد ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے پسینے اور بالوں سے تبرک لیتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے،تو وہ آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے میں باہم مقابلہ کرتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر تبرکات کا معاملہ تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انبیاءِ کرام کے اجسام میں برکت ذاتی تھی جس کا اثر دوسروں تک منتقل بھی ہوتا تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابنیا ورسل کے ساتھ خاص ہے۔ان کے علاوہ انبیاءِ کرام کے صحابہ میں سے کسی صحابی کے بارے میں بھی یہ وارد نہیں کہ ان کی برکت ذاتی ہو۔یہاں تک کہ امت ِمحمدیہ علی صاحبہا والصلوٰۃ والسلام کی سب سے بزرگ ہستیاں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ،ان کے بارے میں بھی تواتر ِقطعی سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صحابہ کرام،تابعین اور مخضرمین(جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا، لیکن زیارت نہ کر سکے) سیدنا ابو بکر و عمراور عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے تبرک نہیں لیتے تھے،جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں ،وضو کے پانی، تھوک، پسینے، لباس وغیرہ سے تبرک لیا جاتا تھا۔اس تواتر ِقطعی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی برکت، عمل والی برکت تھی۔یہ ذاتی برکت نہیں تھی،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی طرح دوسروں کو منتقل ہوتی ہو۔اسی لیے صحیح بخاری کی