کتاب: تبرکات - صفحہ 127
أَبِیکَ إِبْرَاہِیمَ، ثُمَّ مَرَّ بِي بِبَیْتِ لَحْمٍ، فَقَالَ : انْزِلْ، فَصَلِّ ہَا ہُنَا رَکْعَتَیْنِ، فَإِنَّہٗ ہُنَا وُلِدَ أَخُوکَ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ، ثُمَّ أَتٰی بِي إِلَی الصَّخْرَۃِ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، مِنْ ہُنَا عَرَجَ رَبُّکَ إِلَی السَّمَائِ ۔
’’جب مجھے بیت المقدس کی طرف معراج کرائی گئی،تو جبریل میرے ہمراہ میرے دادا ابراہیم علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرے۔کہنے لگے : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہاں دو رکعتیں ادا فرمائیے،یہ آپ کے دادا ابراہیم علیہ السلام کی قبر ہے۔پھر وہ میرے ہمراہ بیت ِلحم سے گزرے،تو کہا : یہاں اتر کر دو رکعتیں ادا کیجیے،کیونکہ یہاں آپ کے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔پھر وہ مجھے لے کر بیت المقدس پہنچے ،تو کہا : محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہاں سے آپ کا ربّ آسمانوں کی طرف چڑھا تھا۔‘‘
(کتاب المجروحین لابن حبّان : 1/197، فضائل بیت المقدس للضّیاء المقدسي : 30)
٭ امام حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا شَيْئٌ لَّا یَشُکُّ عَوَامُّ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ أَنَّہٗ مَوْضُوعٌ، فَکَیْفَ الْبَزْلُ فِي ہٰذَا الشَّأْنِ ۔
’’اس روایت کے من گھڑت ہونے میں طلبہ حدیث کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں ، چہ جائیکہ فن حدیث کے ماہرین اس میں کوئی شک کریں ۔‘‘
اس حدیث کو حافظ ابن الجوزی(الموضوعات : 1/113)، حافظ ابن تیمیہ (اقتضاء الصراط المستقیم : 2/352) اور حافظ ابن حجر(لسان المیزان : 2/51)وغیرہم رحمہم اللہ نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔
٭ اس کے راوی بکر بن زیاد باہلی کے متعلق امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :