کتاب: تبرکات - صفحہ 125
ہے۔پھر وہ جانور ہمیں لیے روانہ ہو گیا۔اس کے پاؤں وہاں پڑتے تھے، جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔یہاں تک کہ ہم ایسی جگہ پر پہنچے جس کے محلات ہمیں نظر آ رہے تھے۔جبریل علیہ السلام نے کہا : آپ نیچے تشریف لائیے۔میں اتر گیا، تو انہوں نے کہا : نماز ادا فرمائیے۔میں نے نماز ادا کی۔انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول (پیغام رساں )ہی بہتر جانتا ہے۔اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے بیت ِلحم میں نماز ادا کی ہے،جہاں عیسیٰ،مسیح ابن مریم علیہما السلام پیدا ہوئے تھے۔‘‘
(المُعجم الکبیر للطّبراني : 7/282، ح : 7142، مسند البزّار : 3484، دلائل النُّبوّۃ للبیہقي : 2/355، وسندہٗ صحیحٌ)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
اسی طرح سنن نسائی(450)میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث بھی موجود ہے۔
اس روایت سے بعض لوگوں نے صالحین کی قیام گاہوں ،عبادت گاہوں ، ان کی جائے ولادت اور ان کی قبور سے تبرک لینے اور وہاں نماز کا اہتمام کرنے کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن ان لوگوں کا استدلال کئی لحاظ سے مبنی بر خطا ہے:
1. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز ادا فرمائی، تو آپ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ کس جگہ نماز ادا کر رہے ہیں ۔یہ کیسا تبرک ہوا؟ تبرک تو تب ثابت ہوتا ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ یہ فلاں متبرک مقام ہے اور آپ وہاں تبرک کی نیت سے نماز ادا کرتے۔ اس