کتاب: تبرکات - صفحہ 120
اسے صرف سلمہ بن قاسم (ضعیف) نے ’’لا باس‘‘ کہا ہے، بھلا جو خود ضعیف ہو، وہ کسی کی توثیق کیسے کر سکتا ہے؟
دوسری سند :
مسند ابی یعلی(5723)کی روایت کے الفاظ یوں ہیں :
لَقَدْ سُرَّ فِي ظِلِّ سَرْحَۃٍ سَبْعُونَ نَبِیًّا، لَا تُسْرَفُ وَلَا تُجَرَّدُ وَلَا تُعْبَلُ ۔
’’اس درخت کے سائے میں ستر انبیائے کرام کی ناف کاٹی گئی۔اسے کیڑا نہیں لگتا، نہ اس کے پتے خشک ہوتے ہیں نہ گرتے ہیں ۔‘‘
یہ سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
1. ابو معاویہ ضریر ’’مدلس‘‘ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
2. اعمش کا عنعنہ ہے۔
3. عبداللہ بن ذکوان نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا زمانہ نہیں پایا۔
(المَراسیل لابن أبي حاتم، ص 111)
لہٰذا یہ سند ’’مدَلَّس‘‘ اور ’’منقطع‘‘ ہے۔
تیسری سند :
تیسری سند أخبار مکۃ للفاکہي(2333)میں آتی ہے،یہ بھی ضعیف ہے۔
1. سفیان بن عیینہ ’’مدلس‘‘ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
2. محمد بن عجلان بھی ’’مدلس‘‘ہیں ،انہوں نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔
محمد بن عجلان کی متابعت معمر بن راشد نے مصنف عبدالرزاق(20975)میں کر رکھی ہے، لیکن اس میں امام عبدالرزاق کا عنعنہ ہے،لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں ۔