کتاب: تبرکات - صفحہ 12
ہے،آتا ہے اور طواف کرتا ہے اور اس کے پاس عبادت کرتا ہے،اس کو خیر کثیر حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح حجر اسود مبارک پتھر ہے،لیکن اس کی برکت صرف عبادت کے لیے ہے،یعنی جو اس کو عبادت کے لیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چومتا ہے اور اس کا استلام کرتا ہے،اسے اس بنا پر اتباع کی برکت حاصل ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کو چوما تو فرمایا : پتھر ہے،نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان یہ بتاتا ہے کہ جو شخص حجر اسود کو چومتا ہے، حجراسود نہ اسے نفع کی کوئی صورت دے سکتا ہے نہ اس سے کسی نقصان والی چیز کو دُور کر سکتا ہے۔ اسے چومنے کا باعث صرف اللہ کی عبادت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔اسی لیے پھر انہوں نے فرمایا : اگر میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھتا،تو میں بھی تجھے نہ چومتا۔جگہوں میں برکت ہونے کا یہی معنیٰ ہے۔اور کسی وقت،مثلاً ماہِ رمضان یا دیگر فضیلت والے ایام کے مبارک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان دنوں میں عبادت کرے گا اور خیر کا ارادہ کرے گا، وہ باقی اوقات کے مقابلے میں زیادہ ثواب حاصل کرے گا۔
دوسری قسم وہ ہے، جو انسانوں میں ودیعت کی ہے،یہ وہ برکت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مؤمن لوگوں میں رکھ دیا ہے۔ان لوگوں میں سرفہرست مؤمنوں کے سردار انبیا ورسل ہیں ۔انبیاءِ کرام کی برکت ذاتی ہوتی ہے،یعنی ان کے اجسام برکت والے ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا، سیدنا نوح علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا،