کتاب: تبرکات - صفحہ 118
فَقُلْتُ : أَرَدْتُ ظِلَّہََا، فَقَالَ : ہَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ : أَرَدْتُّ ظِلَّہَا، فَقَالَ : ہَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ : لَا، مَا أَنْزَلَنِي غَیْرُ ذٰلِکَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا کُنْتَ بَیْنَ الْـأَخْشَبَیْنِ مِنْ مِّنًی، وَنَفَحَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، فَإِِنَّ ہُنَالِکَ وَادِیًا یُّقَالُ لَہُ السُّرُرُ، بِہٖ سَرْحَۃٌ، سُرَّ تَحْتَہَا سَبْعُونَ نَبِیًّا ۔
’’میں مکہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرا ہوا تھا۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا :آپ اس درخت کے نیچے کیوں ٹھہرے ہیں ؟میں نے عرض کیا :اس کے سائے کی وجہ سے۔فرمایا : کوئی اور وجہ؟ میں نے پھر عرض کیا : صرف اس کے سائے کی وجہ سے۔پھر فرمایا : کوئی اور وجہ؟ میں نے پھر عرض کیا : صرف اس کے سائے کہ وجہ سے۔اس پر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جب آپ منیٰ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان ہوں ،تو ان کے درمیان ایک وادی ہے،جسے سرر کہتے ہیں ۔وہاں ایک درخت ہے جہاں ستر نبیوں کے ناف (نال)کاٹے گئے(یعنی ان کی وہاں ولادت ہوئی)۔‘‘
(الموطّأ للإمام مالک : 1/423، 424، مسند الإمام أحمد : 2/138، سنن النسائي : 2995، و صحّحہ ابن حبّان : 6244)
تبصرہ :
یہ روایت ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر‘‘ہے۔
1. محمد بن عمران انصاری ’’مجہول‘‘ ہے۔ اسے صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے