کتاب: تبرکات - صفحہ 116
پیروی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا تھا۔
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) لکھتے ہیں :
ہٰذَا مِنِ ابْنِ عُمَرَ تَحَرٍّ لِّمِثْلِ فِعْلِہٖ، فَإِنَّہٗ قَصَدَ أَنْ یَّفْعَلَ مِثْلَ فِعْلِہٖ، فِي نُزُوْلِہٖ وَصَلاَتِہٖ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس لیے ایسے کاموں کے متلاشی رہتے تھے کہ ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع تھا کہ کس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالا ہے اور کس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔‘‘
(اقتضاء الصّراط المُستقیم : 2/330)
٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سواری پر سوار ہوتے وقت ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر رکاب پر پاؤں رکھا، سواری کی پیٹھ پر بیٹھ کر ’’الحمد للہ‘‘ کہہ کر دُعا پڑھی، پھر ہنس دیے،پوچھا گیا:
مَا یُضْحِکُکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟
’’امیر المومنین! آپ مسکرائے کس لیے ہیں ؟‘‘
جواباً فرمایا :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔‘‘
(السّنن الکبرٰی للبیہقي : 5/252، وسندہٗ صحیحٌ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہنسنے کا باعث بنا اور کوئی وجہ نہیں تھی۔اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا واتباع میں وہاں وہاں نماز پڑھی اور پڑاؤ ڈالا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً نماز پڑھی اور پڑاؤ ڈالا تھا۔