کتاب: تبرکات - صفحہ 115
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبۃ اللہ میں داخل ہوتے، تو دروازے کی طرف پشت کر کے سیدھا منہ کی سمت چلے جاتے،یہاں تک کہ جب ان میں اور سامنے کی دیوارمیں تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو نماز پڑھتے،کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے،جس کے بارے میں بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی تھی۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ ہم بیت اللہ میں جس جانب بھی نماز پڑھیں ،اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘ (صحیح البخاري : 506) یعنی کعبۃ اللہ کے کسی بھی کونے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،البتہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اتباع سنت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس جگہ کی تلاش کی، جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اتباعِ سنت کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو: ٭ عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں : کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِي مَسْجِدَ قُبَائٍ کُلَّ سَبْتٍ، مَاشِیًا وَرَاکِبًا، وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُہٗ ۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے والے دن پیدل یا سوار ہو کر مسجد ِقبا تشریف لے جایا کرتے تھے،سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 1193) ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اتباعِ سنت کے جذبہ سے ایسا کرتے تھے،نہ کہ حصولِ تبرک کے لیے۔ ان کا مقصود صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی