کتاب: تبرکات - صفحہ 111
بنایا تھا۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا، تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ خبردار! بے شک تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیا اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔‘‘
(صحیح مسلم : 532)
٭ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ)لکھتے ہیں :
اِسْتَنْبَطَ الْبَیْضَاوِيُّ مِنْ عِلَّۃِ التَّعْظِیمِ جَوَازَ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ فِي جِوَارِ الصُّلَحَائِ لِقَصْدِ التَّبَرُّکِ دُونَ التَّعْظِیمِ، وَرُدَّ بِأَنَّ قَصْدَ التَّبَرُّکِ تَعْظِیمٌ ۔
’’بیضاوی نے علت ِتعظیم سے یہ استنباط کیا ہے کہ صلحا کے قرب میں تعظیماً نہیں ، تبرک کے طور پر قبر بنانا جائزہے، مگریہ کہہ کر ان(بیضاوی)کا ردّ کر دیا گیا ہے کہ تبرک، تعظیم ہی تو ہے۔‘‘
(نیل الأوطار : 2/159)
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مبلغ علم :
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مبلغ علم ملاحظہ ہو،وہ اس عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں :
’’امام بیضاوی نے علت ِتعظیم سے استنباط کرتے ہوئے صلحا کے قرب میں تبرکاً قبر بنانا جائز قرار دیا ہے، نہ کہ تعظیماً اور انہوں نے اس بات کو ردّ کیا ہے کہ تبرک بھی تعظیم(عبادت)ہے۔‘‘
(تبرک کی شرعی حیثیت،ص: 123)
ڈاکٹر صاحب عبارت کا صحیح ترجمہ کرنے سے قاصر رہے، سادہ لوح عوام کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ’’کوشش‘‘ کی۔
رہا بیضاوی رحمہ اللہ کا استنباط،تو یہ اسلاف ِامت کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے۔