کتاب: تبرکات - صفحہ 11
مبارک کروں گا،کیونکہ برکت،کثرت ِخیر اور لزوم و ثبات ِخیر اسی ذات کے پاس ہے۔ جس کے ہاتھ میں سب معاملات ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔کتاب و سنت کی نصوص یہ بتاتی ہیں کہ جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے،وہ جگہوں کی صورت میں بھی ہیں ،وقت کی صورت میں بھی ہیں اور انسانوں کی صورت میں بھی۔اس کی دو قسمیں ہیں :پہلی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض جگہوں کو برکت دی ہے،جیسے بیت اللہ الحرام کو اور بیت المقدس کے ماحول کو،جیسے فرمایا : ﴿الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ﴾ (الإسراء 17 : 1)(جس کے اردگرد کو ہم نے برکت دی)۔تو جگہ کے مبارک ہونے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس میں خیر کثیر ہوتی ہے،جو اس میں لازم، یعنی ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ (برکت کی نیت سے) اس جگہ کی زمین کو چھوا جائے یا اس کی دیواروں کو مس کیا جائے،کیونکہ اس کی برکت اس جگہ کے ساتھ لازم ہوتی ہے،بالذات منتقل نہیں ہوتی۔اگر آپ اس جگہ کو ہاتھ لگائیں یا اس میں دفن ہو جائیں یا اس سے تبرک حاصل کرنے کی کوشش کریں ،تو اس کی برکت آپ کی طرف بالذات منتقل نہیں ہو گی۔اس کی برکت تو صرف معنوی ہوتی ہے۔یوں بیت اللہ الحرام مبارک ہے،لیکن معنوی طور پر بالذات نہیں ۔بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بیت اللہ کو چھوئے گا،اس کی برکت اس پر منتقل ہو جائے گی،یہ خیال درست نہیں ،کیونکہ بیت اللہ معنوی طور پر مبارک ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کئی برکتیں جمع ہیں ،مثلاً دل اس کے ساتھ اٹک جاتے ہیں ،جو اس میں آنے کا ارادہ کرتا