کتاب: تبرکات - صفحہ 109
گیا، سب سے پہلے میں نے دروازے کے پاس جاکر اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ،جو آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں ۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلنا شروع ہو گیا۔میں نے سنا، کوئی کہہ رہا تھا: دوست کو دوست کے پاس لے چلو، کیونکہ محبوب اپنے حبیب کی چاہت رکھتا ہے۔‘‘
(تاریخ دِمَشق لابن عساکر : 30/436)
تبصرہ :
روایت جھوٹی ہے۔
٭ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
ہٰذَا مُنْکَرٌ، وَرَاوِیہِ أَبُو الطَّاہِرِ مُوْسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَائٍ الْمَقْدِسِيُّ وَعَبْدُ الْجَلِیْلِ مَجْہُوْلٌ ۔
’’یہ جھوٹی روایت ہے، اس کے راوی ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی اور عبدالجلیل دونوں مجہول ہیں ۔‘‘
٭ حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فِي إِسْنَادِہٖ أَبُو الطَّاہِرِ مُوسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطائٍ الْمَقْدِسِيُّ کَذَّابٌ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِیْلِ الْمُرِّيِّ، وَہُوَ مَجْہُولٌ ۔
’’اس روایت کی سند میں ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا، عبدالجلیل مجہول سے بیان کرتا ہے۔‘‘
(الخصائص الکبرٰی : 2/492)
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :