کتاب: تبرکات - صفحہ 106
پر بیٹھنے والی جگہپر ہاتھ رکھا،پھر اسے اپنے چہرے پر پھیر لیا۔‘‘
(الطّبقات لابن سعد : 1/196، وفي نسخۃ : 1/254)
سند ’’ضعیف‘‘ہے، ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدقاری مجہول ہے، صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات (4/9)‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اب دنیا میں نہیں رہا،بلکہ وہ جل گیا تھا، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، لہٰذا اب منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لینا ممکن نہیں ۔
حصول تبرک کے لیے قرب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش :
تبرک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کرنے کی کوئی اصل نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے حجرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد گرامی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوں ۔
دوسری طرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہاں مجھے دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ اس پر سیدہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف وستائش کی اور بوقت وفات فرمایا کہ میری میت کو اٹھا کر لے جانا اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوبارہ اجازت طلب کرنا، اگر وہ اجازت دے دیں ، تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کر دینا۔
جب اجازت مل گئی ،توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا،اس کے الفاظ یہ ہیں :
مَا کَانَ شَيْئٌ أَہَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذٰلِکَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ؛ فَاحْمِلُونِي، ثُمَّ سَلِّمُوا، ثُمَّ قُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِي، فَادْفِنُونِي، وَإِلَّا؛ فَرُدُّونِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِینَ ۔