کتاب: تبرکات - صفحہ 104
کرائی، نہ مجلس مرتب کی، نہ وقت مقرر کیا، نہ تاریخ معین کی، غرض کسی قسم کے تعینات خاصہ سے اس کو مفید نہیں کیا، بلکہ اس کی برکت کو ہر وقت میں قابل استفادہ خیال کیا، بخلاف اس صورت کے جس کو سائل نے بیان کیا ہے، جس میں تعین ماہ و یوم و تاریخ کو امر ضروری اور ازدیاد ثواب میں مؤثر خیال کیا ہے، جس کی سنت نبویہ میں کوئی اصل نہیں ہے اور تداعی اور انعقاد محافل خاصہ کو ضروری خیال کیا ہے، اس میں نوبت و نکارہ اور جملہ مزامیر مہیا کیے جاتے ہیں ، جو سراسر شیاطین کے افعال ہیں ، مالیدہ موئے مبارک بھی بطور نذر لغیر اللہ کیا جاتا ہے اور تبرک کی طرح بانٹا جاتا ہے،حالانکہ اس سے انتفاع حرام قطعی ہے، غزلیں گاتے ہیں ، حالانکہ ایسے راگ بالاتفاق حرام ہیں ، پس برکت حاصل کرنا جو زائد سے زائد مستحب ثابت ہو گا، ایسے محرمات شرعیہ کے ارتکاب کا باعث ہوا جن سے اجتناب واجب ہے اور ظاہر ہے جس امر مستحب کے ارتکاب سے ترک واجب لازم آئے ،اس کا ترک کرنا واجب ہے،پس اس صورت میں ہر گز شریعت اس بات کی اجازت نہ دے گی کہ ایسی بدعات کے ساتھ اس امر مستحب کا ارتکاب صحیح ہو اور اس کا نفس استحباب بھی اس صورت میں مسلّم ہے، جب ثابت ہوجائے کہ واقعی یہ موئے مبارک حضور ہی کا ہے اور اگریہ امر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو ایسے جلسے میں بقصد تبرک حاضر ہونا بھی جائز نہیں اور موئے مبارک پر نذر ماننا اور چڑھاوا چڑھانا حرام ہے، کیونکہ نذر عبادت ہے اور غیر خدا کی عبادت حرام ہے۔‘‘
(مَجموع الفتاویٰ :3 / 178-177)