کتاب: تبرکات - صفحہ 103
ہم کہتے ہیں کہ ان منسوب نعلین کی آخر کیا دلیل ہے؟مگر وہ دلیل پیش کرنے کے بجائے ہمیں گمراہ، بے دین،بیمار دل اور ناپاک تک کہہ دیتے ہیں۔ہم اس اختلاف کا فیصلہ اللہ رب العالمین پر چھوڑتے ہیں ،جو وہ روزِ قیامت فرمائیں گے، ان شاء اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آثار کی تعظیم وہی ہے،جو دین سے ثابت ہو اور جسے خیر القرون کے مسلمانوں نے اختیار کیا ہو۔ منسوب تبرکات کی زیارت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹے تبرکات کی زیارت ہوتی ہے،باقاعدہ مخصوص مہینے، مخصوص تاریخ اور مخصوص موقع کے اعلانات ہوتے ہیں ،اشتہار چھپتے ہیں ۔ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے،کسی پر مخفی نہیں ۔ان تبرکات کو مس کیا جاتا ہے، انہیں بوسہ دیا جاتا ہے، جسموں پر ملا جاتا ہے، ان کی زیارت باعث خیر و برکت اور کارِ اجر و ثواب سمجھی جاتی ہے۔ اخلاقی حوالے سے بھی کئی قباحتیں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں ، مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے، بے حیائی اور بے پردگی عروج پر ہوتی ہے،نوخیز لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہوتے ہیں ، تصاویر اتاری جاتی ہیں ، شرم و حیا کا جنازہ نکالا جاتاہے، دین کے نام پر عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ٭ مولاناعبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جب یہ تمام اور ظاہر ہو چکے تو مسائل کو سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ مذکورہ سوال کے موافق موئے مبارک کی زیارت کراتے ہیں ، وہ بدعات و مخترعات کے پابند ہیں ، روایت مذکورہ بالا کے موافق جب حضرت ام سلمہ سے موئے مبارک کا پانی مریض کے لیے مانگا گیا تو انہوں نے نہ ڈول تاشہ بجوایا،نہ قرآن خوانی