کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 63
وضاحت کر دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں قتال کا کوئی ارادہ نہیں، مقامات مقدسہ کے احترام کے آپ حریص ہیں، عمرہ کرنے آئے ہیں، عمرہ ادا کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے اس سلسلہ میں اولاً انتخاب خراش بن امیہ الخزاعی رضی اللہ عنہ کا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلب نامی اونٹ پر سوار کر کے انہیں روانہ کیا، لیکن جب یہ مکہ پہنچے تو قریش نے ان کے اونٹ کو مار ڈالا اور خراش رضی اللہ عنہ کے قتل کے درپے ہوئے لیکن احابیش نے انہیں بچا لیا۔ خراش رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آکر قریش کی رپورٹ پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سفیر روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا جو آپ کا پیغام قریش کو پہنچا سکے۔ آپ کی نظر انتخاب عمر رضی اللہ عنہ پر پڑی۔[1] لیکن آپ نے معذرت پیش کی اور عثمان رضی اللہ عنہ کو اس اہم مہم کے لیے منتخب کرنے کا مشورہ دیا،[2] اور اس سلسلہ میں واضح دلائل پیش کیے کیوں کہ ایسے شخص کے لیے جو دشمن کے پاس اتنی اہم مہم پر جا رہا ہو ضروری ہے کہ اس کی حفاظت و حمایت کے اسباب مہیا ہوں اور یہ چیز عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل نہ تھی اسی لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مہم پر روانہ کرنے کا مشورہ دیا، عثمان رضی اللہ عنہ کا خاندان مکہ میں موجود تھا اور انہیں قوت حاصل تھی، وہ آپ کو مشرکین کی ایذا رسانی سے بچا سکتے تھے، اور اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قریش کو اچھی طرح پہنچا سکتے تھے۔[3] چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے اپنے سلسلہ میں قریش سے ڈر ہے۔ ان کے تئیں میری عداوت معروف ہے اور مکہ میں بنو عدی کا ایسا کوئی فرد نہیں جو ان کے مقابلہ میں میری حمایت کر سکے، لیکن پھر بھی اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں۔[4] اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ میں ایک ایسے شخص کی نشان دہی کرتا ہوں جو مکہ میں مجھ سے زیادہ معزز اور اس کے خاندان کے افراد زیادہ طاقتور ہیں وہ عثمان بن عفان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہم کسی سے قتال کرنے نہیں آئے ہیں، ہم خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، ہمارے ساتھ ہدی کے جانور ہیں ہم انہیں ذبح کریں گے اور واپس ہو جائیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اس مہم پر روانہ ہوئے، بلدح مقام پر پہنچے تو قریش کے لوگ انہیں وہاں ملے، انہوں نے آپ سے سوال کیا کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر اور اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا۔ اگر یہ منظور نہیں ہے تو تم ان کا راستہ چھوڑ کر خاموش ہو جاؤ، دوسروںکو اس کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو پھر تمہیں اختیار ہو گا چاہے تم اس دین میں داخل ہو جاؤ جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں یا پھر تم ان سے اس حالت میں قتال کرو جب کہ تمہاری تعداد زیادہ ہو اور قوت و
[1] غزوۃ الحدیبیۃ؍ ابوفارس صفحہ (۷۳) [2] المغازی؍ محمد بن عمر الواقدی : (۲؍۶۰۰) [3] المغازی: (۲؍۶۰۰) [4] المغازی: (۲؍۶۰۰)