کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 54
رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہو گئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہو چکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آ پڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کر دیا کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔‘‘ اور جنت سے متعلق آپ کا نظریہ آیات قرآنیہ سے مستفاد تھا۔ یہی تصور شریعت الٰہی سے انحراف کو روکنے کا سبب بنا، چنانچہ سیرت عثمانی کا مطالعہ کرنے والے کو آپ کی سیرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے فہم میں گہرا استیعاب اور عذاب الٰہی کا شدید خوف نمایاں نظر آئے گا۔ آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ یہ تفصیلات ہم ملاحظہ کریں گے۔ قضاء و قدر کے مفہوم کو کتاب اللہ اور تعلیم نبوی سے حاصل کیا تھا آپ کے دل میں قضاء و قدر کا مفہوم راسخ ہو چکا تھا اور کتاب میں اس کے مراتب کا استیعاب کر رکھا تھا۔ انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (61) (یونس: ۶۱) ’’اور آپ کسی حال میں ہوں اور من جملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو۔ اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہر ہونے والی چیز کو لکھ رکھا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (12) (یس: ۱۲) ’’بے شک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔‘‘ اللہ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے اور اس کی قدرت نام ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: