کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 536
۴۸۔ محققین کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ کچھ اسباب ایسے تھے جن کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دفاع میں قتال کرنے سے روک دیا تھا۔ وہ اسباب یہ تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل جو آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو چپکے سے کی تھی اور جس کو عثمان رضی اللہ عنہ نے محاصرہ کے دنوں میں بیان کیا اور بتلایا کہ یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہے اور اس پر وہ صابر ہیں۔ آپ نے یہ ناپسند کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں آپ پہلے شخص ہوں جو مسلمانوں کا خون بہائیں۔ آپ کو اس حقیقت کا علم تھا کہ باغی صرف انہی کو قتل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا آپ نے مسلمانوں کے ذریعہ سے بچاؤ کو ناپسند کیا، اور یہ پسند کیا کہ اپنی جان دے کر مسلمانوں کی جانوں کو بچا لیں۔ آپ کو اس بات کا علم تھا کہ اس فتنہ میں شہید ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کی خبر اس وقت دی تھی جب آپ کو مصیبت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دی تھی اور یہ کہ وہ حق پر ثابت رہ کر فتنہ میں شہید ہوں گے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل جب کہ انہوں نے آپ سے کہا تھا کہ دفاع سے رک جائیں یہ آپ کے لیے بلیغ حجت ہے۔
۴۹۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل ایک مصری شخص ہے۔ روایات میں اس کے نام کی وضاحت نہیں، محمد بن ابی بکر پر جو قتل عثمان کا اتہام ہے وہ باطل ہے اس سلسلہ کی روایات ضعیف ہیں اور اس کے متن شاذ ہیں کیوں کہ وہ صحیح روایات کے مخالف ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل مصری شخص ہے۔
۵۰۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خون عثمان رضی اللہ عنہ سے بری الذمہ ہیں، صحیح اخبار، وقائع اور تواریخ اس بات پر شاہد ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے یا فتنہ میں شرکت کرنے سے بری الذمہ ہیں جیسا کہ ہم نے اس سلسلہ میں صحیح روایات پیش کی ہیں۔
۵۱۔ عثمان رضی اللہ عنہ بیدار مغز تھے، باغیوں کی سازشوں اور ان کے اغراض و مقاصد سے آپ غافل نہ رہے بلکہ آپ ان کی صفوں کو پھاڑنے اور ان کے منصوبوں کو معلوم کرنے میں کامیاب رہے اور بڑی شجاعت سے ان کا مقابلہ کیا اور اس بات کو ناپسند کیا کہ مسلمانوں میں سب سے پہلے تلوار کھینچنے والے بنیں اور امت کی خاطر اپنی جان قربان کر دی، قربانی و ایثار کی یہ بلندی ہے۔
۵۲۔ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ دوسرے بہت سے فتنوں کے وجود کا سبب بنا اور اپنے بعد کے فتنوں پر اپنا سایہ ڈالا، لوگوں کے دل بدل گئے، کذب ظاہر ہوا، عقیدہ و شریعت میں اسلام سے انحراف شروع ہوا۔
۵۳۔ دوسروں پر نا حق ظلم و زیادتی دنیا و آخرت میں ہلاکت کے اسباب میں سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَوْعِدًا (59) (الکہف: ۵۹)