کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 535
لگایا، جسے طہٰ حسین اپنی کتاب ’’الفتنۃ الکبریٰ‘‘ میں، راضی عبدالرحیم اپنی کتاب ’’النظم الاسلامیۃ‘‘ میں، محمد ریس نے اپنی کتاب ’’النظریات السیاسیۃ‘‘ میں، علی حسین خر بوطلی نے اپنی ’’کتاب الاسلام و الخلافۃ‘‘ میں ، ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں، سید قطب نے اپنی کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیۃ‘‘ میں، وغیرہم۔ یقینا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مظلوم ہیں۔ آپ کے اوّلین معاندین نے افتراء پردازی کی اور متاخرین نے انصاف سے کام نہ کیا۔ ۴۲۔ تاریخی حقائق کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو جلا وطن نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اجازت طلب کی اور آپ نے ان کو اجازت دے دی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے اعداء نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ آپ نے ان کو جلا وطن کر دیا تھا۔ ۴۳۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ دور و نزدیک کہیں سے بھی عبداللہ بن سبا یہودی کے افکار و نظریات سے متاثر نہیں ہوئے۔ آپ نے مقام ربذہ میں وفات تک سکونت اختیار کی اور کسی فتنہ میں شریک نہیں ہوئے۔ ۴۴۔ فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے مختلف اسباب ہیں: خوش حالی اور معاشرہ پر اس کا اثر، عہد عثمانی میں معاشرتی تبدیلی، عثمان رضی اللہ عنہ کا عمر رضی اللہ عنہ کے بعد آنا، اکابر صحابہ کا مدینہ سے منتقل ہو جانا، جاہلی عصبیت، فتوحات کا رک جانا، زہد و ورع کا غلط مفہوم، اقتدار پسندوں کی امنگیں، حاقدین کی سازش، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اعتراضات کو ہوا دینے کی منظم اور محکم تدابیر ،لوگوں کو برانگیختہ کرنے والے وسائل و اسالیب کو اختیار کرنا، عبداللہ بن سبا کا کردار۔ ۴۵۔ فتنہ کی چنگاری کوفہ سے اٹھی، ان فسادیوں کو شام کی طرف شہر بدر کیا گیا، پھر الجزیرہ میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کے پاس ٹھہرے اور یزید بن قیس کے ساتھ خط و کتابت کے بعد یہ لوگ کوفہ لوٹ آئے۔ ۴۶۔ فتنہ کے ساتھ تعامل کے سلسلہ میں عثمانی سیاست حلم و صبر، عدم استعجال اور عدل پر قائم تھی۔ آپ نے اس کے مقابلہ میں متعدد اسلوب اختیار کیے: تحقیق و جانچ کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے کر روانہ کرنا، صوبوں کے باشندگان کے نام ہر مسلمان کے لیے عام اعلان کی شکل میں خطوط بھیجنا، صوبوں کے والیان اور گورنروں سے مشاورت کرنا، باغیوں پر حجت قائم کرنا اور ان کے بعض مطالبات کو قبول کرنا۔ ۴۷۔ فتنہ کے ساتھ تعامل کے سلسلہ میں جو بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے طرز عمل میں غور و فکر کرے گا وہ اس سے بعض ایسے اصول و ضوابط مستنبط کر سکتا ہے جو فتنوں کا مقابلہ کرنے میں مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ انہی اصول و ضوابط میں سے چند یہ ہیں: تحقیق و توثیق، عدل و انصاف کا التزام، حلم و صبر، نفع بخش چیز کا حریص ہونا، مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے والے امور کو نظر انداز کرنا، خاموشی اختیار کرنا اور کثرت کلام سے پرہیز کرنا، علماء ربانی سے مشورہ کرنا، فتنوں سے متعلق احادیث نبویہ سے رہنمائی حاصل کرنا۔