کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 534
حضرموت، شام، آرمینیہ، مصر، بصرہ، کوفہ ۳۵۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال و افسران کی نگرانی اور ان کی خبروں پر مطلع ہونے کے لیے مختلف اسالیب اختیار کیے، ان میں سے بعض یہ ہیں: موسم حج میں حاضر ہونا، صوبوں اور شہروں سے آنے والوں سے سوال دریافت کرنا، جانچ پڑتال کرنے والوں کو صوبوں اور ریاستوں میں بھیجنا، گورنروں کو طلب کرنا اور ان سے سوال کرنا وغیرہ۔ ۳۶۔ عہد راشدی میں امراء اور گورنروں کے حقوق یہ تھے: غیر معصیت میں ان کی اطاعت کرنا، ان کی خیر خواہی کا حق ادا کرنا، ان تک صحیح خبریں پہنچانا، معزولی کے بعد ان کا احترام کرنا، ان کی تنخواہیں دینا۔ ۳۷۔ عہد راشدی میں امراء اور گورنروں کے فرائض یہ تھے: امور دین کی اقامت، لوگوں کو امن و امان بہم پہنچانا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، لوگوں کے لیے اشیائے خورو نوش کی حفاظت میں پوری کوشش صرف کرنا، عمال اور وظیفہ دینے والے مقرر کرنا، ذمیوں کا خیال رکھنا، اور اپنے اپنے صوبہ میں اہل رائے سے مشورہ لینا، صوبہ کی تعمیری ضرورت پر غور و فکر کرنا، اور صوبوں کے باشندوں کے معاشرتی اور اجتماعی احوال کا خیال رکھنا۔ ۳۸۔ عثمان رضی اللہ عنہ قابل اقتداء خلیفہ راشد ہیں، آپ کے افعال اور کارروائیاں اس امت کے دستوری ریکارڈ ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد والوں کے لیے قرابت داروں کو قریب کرنے سے احتراز کرنے کی طرح ڈالی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے قربت داروں کو قریب کرنے کی طرح ڈالی بشرطیکہ انتظامی صلاحیت و قابلیت کے حامل ہوں اور عثمان رضی اللہ عنہ پر جو اعتراضات کیے گئے وہ مباح کے دائرے سے خارج نہیں۔ ۳۹۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے قرابت داروں میں سے جن والیوں اور گورنروں کو مقرر کیا انہوں نے اپنے اپنے صوبوں اور ریاستوں کے انتظام و انصرام میں اپنی قابلیت و صلاحیت ثابت کر کے دکھائی اور ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے بہت سے ممالک پر فتح عطا کی اور انہوں نے رعیت میں عدل و احسان کا طریقہ اختیار کیا، ان میں وہ حضرات بھی تھے جو یہ منصب عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں سنبھال چکے تھے۔ ۴۰۔ جب بھی اسلامی تاریخ کے اس دور کا مطالعہ کیا جائے گا تو جو شخص بھی صحیح تاریخی وقائع کی طرف رجوع کرے گا اور ان حضرات کی سیرتوں کا جائزہ لے گا جن سے عثمان رضی اللہ عنہ نے ملکی انتظام و انصرام میں کام لیا ہے تو وہ پسندیدگی اور فخر کا اعلان کیے بغیر نہیں رہ سکتاکہ اسلامی دعوت کی تاریخ میں ان کے جہاد کا کتنا خوشگوار اثر ہوا اور ان کے حسن انتظام و انصرام کے عظیم نتائج اس امت کی خوش حالی اور سعادت مندی کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ ۴۱۔ بہت سے مؤلفین و مصنّفین نے دور عثمانی سے متعلق غیر منصفانہ اور غیر تحقیقی تحریروں میں عثمان رضی اللہ عنہ کو نہیں بخشا ان میں سے اکثر لوگ ضعیف اور رافضی روایات سے متاثر ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ پر ظالمانہ اور باطل حکم