کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 53
کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے بیوی اور بچے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے توعبد اور عبودیت کے مضمون کو اچھی طرح قرآن میں بیان کر دیا ہے۔ [1] اور کائنات سے متعلق آپ کا نظریہ ان ارشا دات الٰہیہ سے ماخوذ تھا: قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (9) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (10) ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (12) (حٰم السجدہ: ۹۔۱۲) ’’آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں برکت رکھ دی، اور اس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے، دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں، پس دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی۔ یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہے۔‘‘ یہ زندگی کتنی ہی طویل ہو زوال پذیر ہے اور اس کا ساز و سامان کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو قلیل اور حقیر ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (24) (یونس: ۲۴) ’’پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں خوب گنجان ہو کر نکلی، یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی
[1] منہج الرسول فی غرس الروح الجہادیۃ: ۱۰۔۱۶۔