کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 513
حیا سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ جاہلیت کا نعرہ لگائیں اور عمار رضی اللہ عنہ کو ان کی ماں سمیہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ سے عار دلائیں جب کہ اسلام میں ان کی سبقت اور ان کا فضل عثمان رضی اللہ عنہ پر عیاں تھا اور اسلام میں اوّل شہیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کی طرف عمار رضی اللہ عنہ کے انتساب کے شرف سے اچھی طرح واقف تھے؟
ہرگز نہیں عثمان رضی اللہ عنہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے ہیں، موثوق اور معتبر صحیح روایات میں تادیب اور توبیخ و زجر کے اس گرے ہوئے اسلوب کا سرے سے کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا اور مزید براں آپ کے اخلاق عالیہ اور آپ کی سیرت و طبیعت اس کو بعید از قیاس اور مستبعد قرار دیتی ہیں اور بلاشبہ ان وضاعین و کذابین اور مفترین کی ریشہ دوانیوں اور راز ہائے سربستہ کا پردہ فاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان موضوع روایات کو ان ائمہ اعلام کے معروف اخلاق و مواقف پر پیش کیا جائے اور اس دور کے معیار و مقاییس کے اعتبار سے ان کا جائزہ لیا جائے۔[1]
۲۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پر سبائی فتنہ میں حصہ لینے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے کا اتہام:
ان اتہامات اور افتراء ات میں مؤرخین نے ان روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں سے ایک بھی سند و متن میں طعن سے خالی نہیں۔ سبائی فتنہ کو ہوا دینے، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے اور بغاوت و عصیان کی فضا عام کرنے کے سلسلہ میں عمار رضی اللہ عنہ کی طرف مختلف تہمتیں منسوب ہیں۔ ان روایات میں بعض کے اندر یہ مذکور ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر اس غرض سے روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کا جائزہ لیں کیوں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تھی کہ عوام بغاوت پر اتر آئی ہے اور وہاں سبائی عمار رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف مائل کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں، یہ روایت جسے طبری نے بیان کیا ہے[2] اس کی سند میں شعیب بن ابراہیم تمیمی کوفی ہے جو سیف کی کتابوں کا راوی ہے۔ اس کے اندر جہالت پائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں راوی کا کہنا ہے: یہ معروف نہیں، اس سے جو احادیث و اخبار مروی ہیں، ان میں نکارت ہے اور ان روایات میں سلف پر حملے ہیں۔[3] اس کو عمر بن شبہ نے تاریخ المدینہ میں روایت کیا ہے اور اس میں عمر کا شیخ علی بن عاصم ہے، اس کے بارے میں امام علی بن مدینی کہتے ہیں کثیر الاغلاط ہے اور جب اس کی غلطی کی تصحیح کی جاتی تھی تو رجوع نہیں کرتا تھا اور حدیث میں معروف تھا اور منکراحادیث روایت کرتا تھا۔[4]
امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’لیس بشی‘‘[5] (کسی کام کا نہیں) اور ایک مرتبہ فرمایا: ’’کذاب لیس بشی‘‘[6]امام نسائی نے فرمایا: متروک الحدیث ہے۔[7] امام بخاری نے فرمایا: محدثین کے نزدیک قوی نہیں،
[1] الخلیفۃ المفتری علیہ عثمان بن عفان ص (۱۴۔۴۱)، عمار بن یاسر ص (۱۳۷)
[2] تاریخ الطبری (۵؍۳۴۸)
[3] استشہاد عثمان و وقعۃ الجمل ص (۳۰)
[4] سیر اعلام النبلاء (۹؍۲۵۳)
[5] سیر اعلام النبلاء (۹؍۲۵۵)
[6] سیر اعلام النبلاء (۹؍۲۵۷)
[7] سیر اعلام النبلاء (۹؍۲۵۵)