کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 507
’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔ ‘‘
٭ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کی شہادت دی۔ نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: وہ تو ملاء اعلیٰ میں ذوالنورین کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے آپ کی زوجیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے جنت میں گھر کی ضمانت دی۔[1]
٭ آپ عثمان رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے معترف اور آپ کے اطاعت گزار تھے، آپ کے کسی امر کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: اگر عثمان وادی ضرار جانے کا مجھے حکم دیں تو میں آپ کی بات سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔[2] اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت و اتباع کی انتہا کی دلیل ہے۔[3]
٭ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ و اجماع کے بعد ایک قراء ت پر لوگوں کو جمع کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو ذمہ داری عثمان رضی اللہ عنہ پر ڈالی گئی اگر مجھ پر ڈالی جاتی تو میں وہی کرتا جو عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔[4]
٭ علی رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے انکار کیا اور ان کے خون سے اپنی براء ت کا اظہار کیا۔ آپ اپنے خطبہ وغیرہ میں قسم کھا کر کہتے تھے کہ انہوں نے آپ کو قتل نہیں کیا اور نہ قتل کا حکم دیا، نہ اس پر ابھارا اور نہ اس سے راضی ہوئے۔ یہ آپ سے اتنے طرق سے ثابت ہے جو قطعیت کا فائدہ دیتے ہیں۔[5]برخلاف رافضیوں کے اس زعم کے کہ آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے راضی تھے۔[6] امام حاکم رحمہ اللہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے متعلق بعض روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اہل بدعت نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں تعاون کیا تو وہ کذب اور بہتان ہے اس کے برخلاف متواتر روایات وارد ہیں۔[7]
[1] العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط والتفریط ص (۲۲۷) المختصر من کتاب الموافقۃ بین اہل البیت و الصحابۃ للزمخشری مخطوطۃ ، مکتبۃ المخطوطات بالجامعۃ الاسلامیۃ۔ آخر میں دارالحدیث کے ذریعہ سے اس مخطوطہ کی طباعت ہوئی۔
[2] السنۃ؍ الخلال (۱؍۳۲۵) ص (۴۱۶) اسنادہ صحیح
[3] العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط ص (۲۲۷)
[4] السنن؍ البیہقی (۲؍۴۲)
[5] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۰۲)
[6] العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط ص (۲۲۹)، حق الیقین؍ عبداللہ شبر ص (۱۸۹)
[7] المستدرک (۳؍۱۰۳)