کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 503
لوگ تھے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں کوئی صحابی شریک نہ تھا۔ آپ کو قتل کرنے والے رذیل اور نچلے طبقہ کے ناکارہ، بے وقوف، کمینے اور فسادی لوگ تھے جو مصر سے جتھا بنا کر اس مقصد سے آئے تھے۔ مدینہ میں موجود صحابہ دفاع سے عاجز رہے اور ان لوگوں نے آپ کا محاصرہ کر کے قتل کر دیا۔[1]اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے قاتلین سے متعلق فرمایا: یہ صوبوں کے نچلے طبقہ کے فسادی لوگ تھے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ اجنبی اور قبائل سے نکلے ہوئے لوگ تھے۔[2]
ابن سعد فرماتے ہیں: یہ ادنیٰ درجے کے اور کمینے لوگ تھے جو شرپر متفق تھے۔[3]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ خارجی، مفسد، گمراہ، باغی، زیادتی کرنے والے اور ظالم لوگ تھے۔[4]
علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ شر اور بد اخلاقی کے سرغنہ تھے۔[5]
ابن عماد حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ رذیل اور قبائل کے اوباش لوگ تھے۔[6]
عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ سے لے کر ظالمانہ شہادت تک کے واقعات ان اوصاف پر شاہد ہیں۔ آپ سے ان کمینوں نے کھانا پانی روک دیا جب کہ آپ نے اپنے مال خاص سے مسلمانوں کی پیاس مفت بجھائی[7] اور جب بھی مدینہ میں قحط اور بھکمری پڑی اپنا مال لوگوں پر بے دریغ خرچ کیا اور جب مسلمانوں کو کوئی مصیبت آئی یا کسی پریشانی سے دوچار ہوئے تو جود و سخا کے دہانے کھول دیے۔[8] علی رضی اللہ عنہ نے باغیوں کو سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا: لوگو! جو حرکت تم کر رہے ہو یہ نہ مسلمانوں کے فعل سے میل کھاتی ہے اور نہ کافروں کے، ان سے پانی اور کھانا مت روکو، روم و فارس والے قیدیوں کو بھی کھلاتے پلاتے ہیں۔[9]
صحیح روایات اور تاریخی واقعات اس بات پر شاہد ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے اور آپ کے خلاف فتنہ میں شرکت سے بالکل بری تھے-[10]
[1] شہید الدار عثمان بن عفان ص (۱۴۸)
[2] شرح النووی علی صحیح مسلم (۵؍۱۴۸) ، کتاب فضائل الصحابۃ
[3] طبقات؍ ابن سعد (۳؍۷۱) تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۴۸۱)
[4] منہاج السنۃ (۳؍۱۸۹۔۲۰۶)
[5] دول الاسلام ؍ الذہبی (۱؍۱۲)
[6] شذرات الذہب (۱؍۴۰)، تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۴۸۲)
[7] دیکھیے: تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۴۸۲)، البخاری، کتاب مناقب عثمان (۴؍۲۰۲)
[8] التمہید والبیان ص (۲۴۲)
[9] تاریخ الطبری (۵؍۴۰۰)
[10] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۱۸)