کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 499
کیا ہے کہ آپ کو مغرب و عشاء کے مابین دفن کیا گیا۔[1]رہی طبرانی کی روایت جس میں عبدالملک بن الماجشون کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو تین دن تک بنو فلاں کے گھورے پر پڑے رہے۔[2] تو یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف اور متن کے اعتبار سے باطل ہے اس کی سند میں دو علّتیں ہیں:
٭ عبدالملک بن ماجشون ضعیف ہے یہ امام مالک رحمہ اللہ سے منا کیر روایت کرتا ہے۔
٭ یہ روایت مرسل ہے کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت موجود نہ تھے کیوں کہ آپ کی ولادت ۹۳ھ میں ہوئی ہے۔[3]
رہا اس روایت کا متن، تو یہ باطل ہے اس سلسلہ میں ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ تین دن تک گھورے پر پڑے رہے تو یہ محض جھوٹ ہے، موضوع اور بہتان ہے، یہ ان لوگوں کی پیداوار ہے جن کو حیا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدر کے دن کفار قریش کے مقتولین کو کنویں میں ڈالنے کا حکم فرمایا تھا اور پھر ان کے اوپر مٹی ڈال دی تھی حالاں کہ وہ اللہ کی بدترین مخلوق تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے مقتولین کے لیے خندق کھودنے کا حکم فرمایا تھا اور وہ ان لوگوں میں بدترین لوگ تھے، جنھیں زمین میں دفن کیا گیا، مومن ہو یا کافر اس کو دفن کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ تو حیا مند انسان کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ (جو امام وقت تھے) اور مدینہ میں موجود صحابہ کی طرف منسوب کرے کہ انہوں نے ایک میّت کو تین دن تک گھورے پر پھینکے رکھا دفن نہیں کیا۔[4]
کسی انسان کی عقل میں جو رفض و تشیع سے محفوظ ہو، یہ بات گھس نہیں سکتی کہ ان حضرات صحابہ نے تین دن تک اپنے امام کو بغیر دفن کے چھوڑے رکھا۔ باغی جو عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ قتل کے لیے آئے تھے ان کی قوت کچھ بھی رہی ہو کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت بیان کی ہے اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے، یہ روایات جنھوں نے اسلامی تاریخ کو مسخ کیا ہے روافض کی دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہیں۔[5]
۴۔عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے محمد بن ابي بکر کي برا ء ت: …عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل ایک مصری شخص تھا روایات میں اس کا نام مذکور نہیں۔ روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اصل میں سدوسی تھا، کالے
[1] الطبقات (۳؍۷۸)، تاریخ الاسلام (عہد الخلفاء) (۱؍۴۸)
[2] المعجم الکبیر (۱؍۷۸)، استشہاد عثمان ص (۱۹۴)
[3] تہذیب التہذیب؍ ابن حجر (۶؍۴۰۸)
[4] الفصل (۴؍۲۳۹۔۲۴۰)
[5] عقیدۃ اہل السنۃ (۳؍۱۰۹۱)