کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 498
میں اختلاف ہے، لیکن میرے نزدیک علماء کے اقوال میں سے جو راجح ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو جام شہادت نوش فرمایا۔[1] رہا دن کی تحدید کہ کون سا دن تھا؟ تو اس سلسلہ میں تین اقوال وارد ہیں اور ان اقوال میں سے جو قول میرے نزدیک راجح ہے وہ جمہور کا قول ہے کہ یہ دن جمعہ کا دن تھا، کیوں کہ یہ جمہور کا قول ہے اور اس کے برخلاف کوئی قول اس سے قوی نہیں ہے۔[2] اور آپ کی شہادت کا واقعہ صبح کے وقت پیش آیا جمہور کی یہی رائے ہے اور اس کے بر خلاف اس سے قوی تر کوئی قول نہیں ہے۔[3]
۲۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر: …شہادت کے وقت آپ کی عمر کے سلسلہ میں روایات میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف قدیم ہے۔ یہاں تک کہ امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ کی مدت حیات کی تحدید میں ہم سے قبل سلف کا اختلاف ہے۔[4]
میرا میلان اس طرف ہے کہ آپ کی عمر شہادت کے وقت ۸۲ سال تھی، یہی جمہور کا قول ہے اور مختلف اسباب سے یہ راجح قرار پاتا ہے:
٭ آپ کے سن ولادت کا سن شہادت سے مقارنہ کیا جائے تو اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی اور شہادت ۳۵ھ میں ہوئی آپ کی ولادت کی تاریخ کی شہادت کی تاریخ سے تفریق کرنے سے شہادت کے وقت آپ کی عمر کا پتہ چل جاتا ہے کہ ۸۲سال تھی۔
٭ یہی جمہور کا قول ہے اور اس کے خلاف کوئی قوی ترین قول نہیں ہے۔[5]
۳۔نماز جنازہ اور تدفین: …صحابہ کی ایک جماعت نے شہادت ہی کے روز آپ کو غسل و کفن دیا اور آپ کا جنازہ اٹھایا، ان میں سے حکیم بن حزام، حویطب بن عبدالعزیٰ، ابو الجہم بن حذیفہ، نیار بن مسلم اسلمی، جبیر بن مطعم، زبیر بن عوام، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم تھے اور آپ کے اصحاب و خواتین کی ایک جماعت تھی ان میں سے آپ کی دو بیویاں نائلہ اور ام البنین بنت عتبہ بن حصین تھیں اور بچے بھی تھے۔ آپ کی نماز جنازہ جبیر بن مطعم نے پڑھائی۔ زبیر بن عوام، حکیم بن حزام، مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کا نام بھی اس سلسلہ میں مروی ہے۔[6] لیکن میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ آپ کی نماز جنازہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کو دفن کیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی وصیت کی تھی۔[7]
آپ کو رات میں دفن کیا گیا۔ ابن سعد اور ذہبی کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے، ان دونوں نے ذکر
[1] تاریخ الطبری (۵؍۴۳۵)
[2] تاریخ الطبری (۵؍۴۳۶)
[3] تاریخ الطبری (۵؍۴۳۷)
[4] تاریخ الطبری (۵؍۴۳۸)
[5] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۲۰۴)
[6] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۹۹)
[7] الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد (۱؍۵۵۵)، اس کے رجال ثقات ہیں لیکن سند منقطع ہے۔