کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 494
’’موت کسی طاقتور سے طاقتور کو بھی نہیں چھوڑتی، اور نہ دنیا میں دوبارہ آنے کا موقع دیتی ہے۔‘‘ نیز فرمایا: یبیت اہل الحصن و الحصن مغلق و یاتی الجبال فی شماریخہا العلی[1] ’’قلعہ والے تو قلعہ بند ہو کر رات گزارتے ہیں اور بلند ہمت والے ہی پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچتے ہیں۔‘‘ جب باغیوں نے آپ کو گھیر لیا تو آپ کی بیوی نائلہ بنت قرافصہ نے کہا: خواہ ان کو قتل کرو یا چھوڑ دو، یہ ایک رکعت میں پوری رات گزار دیتے تھے اور اس میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔[2] نائلہ نے اپنے شوہر عثمان رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا آپ کو اپنے جسم سے ڈھانپ لیا اور اپنے ہاتھ سے تلوار روکی۔سودان بن حمران نے عمداً ان کی انگلیوں پر وار کیا اور آپ کی انگلیاں کٹ گئیں وہ پیچھے ہٹیں تو ان کی سرین پر مارا۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے جب یہ صورت حال دیکھی تو عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پریشان ہو گیا، اس کا نام نجیح تھا، اس سے برداشت نہ ہوا اور سودان بن حمران پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا اور جب قتیرہ بن فلان سکونی نے دیکھا کہ نجیح نے حمران کو قتل کر دیا ہے تو اس نے نجیح پروار کر کے اسے شہید کر دیا اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے دوسرے غلام صبیح نے قتیرہ کو قتل کر دیا اس طرح گھر میں چار قتل ہوئے دو شہید اور دو مجرم۔ شہیدوں میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور آپ کے غلام نجیح تھے اور مجرموں میں سودان سکونی اور قتیرہ سکونی تھے۔ جب سبائی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سبائیوں کے منادی نے اعلان کیا: ایسا نہیں ہو سکتاکہ اس شخص کا خون ہمارے لیے حلال ہو اور مال حرام ہو، معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا مال ہمارے لیے حلال ہے لہٰذا گھر میں جو کچھ ہے لوٹ لو، اس کے بعد سبائیوں نے گھر میں فساد برپا کر دیا جو کچھ گھر میں تھا سب لوٹ لیا، عورتوں کے زیور تک اتروا لیے، سبائیوں کا ایک فرد کلثوم تجیبی عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی نائلہ کی طرف جھپٹا اور ان کے جسم سے چادر چھین لی اور ان کے سرین پر مارا اور کہا: تیری ماں برباد، کتنی بڑی تیری سرین ہے‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام صبیح نے اس کی یہ حرکت دیکھی اور اس کے یہ ناشائستہ کلمات نائلہ کے حق میں سنے تو تلوار اٹھائی اور اس
[1] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۹۱)، البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۹۲) [2] الطبقات (۳؍۷۶)، فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۹۱) [3] تاریخ الطبری (۵؍۴۰۶۔۴۰۷)