کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 488
کچھ بھی چھوڑیں گے نہیں۔ یا میں خلافت سے دست بردار ہو جاؤں اور وہ کسی دوسرے کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ یا وہ لشکر اور مدینہ والوں میں سے اپنے متبعین کو جمع کریں گے اور وہ سب اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں گے جس کی سمع وا طاعت اللہ نے ان پر فرض کر رکھی ہے۔ ان کے اس مطالبہ کے جواب میں میں نے ان سے کہا: رہا مسئلہ ہر ایک کا قصاص دینے کا تو مجھ سے قبل خلفاء گزرے ہیں ان سے بھی خطاء و صواب کا صدور ہوا ہے، لیکن ان میں سے کسی سے قصاص نہیں لیا گیا اور میں جانتا ہوں کہ وہ میری جان لینا چاہتے ہیں، رہا یہ کہ خلافت و امارت سے دست بردار ہو جاؤں تو اگر یہ لوگ آنکس سے مجھ پر حملہ کریں تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اللہ کے عمل اور اس کی خلافت سے دست بردار ہو جاؤں۔ رہا تمہارا یہ کہنا: لشکر اور مدینہ والوں کو بلایا جائے گا اور وہ میری اطاعت سے براء ت کا اظہار کریں گے تو یاد رہے میں تم پر داروغہ نہیں ہوں اور نہ میں نے کسی کو اس سے قبل سمع و اطاعت پر مجبور کیا ہے۔ لوگوں نے خود برضا و رغبت اطاعت قبول کی ہے، وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں آپس میں اصلاح چاہتے ہیں۔ تم میں سے جو شخص دنیا کا طالب ہے وہ اس میں سے اتنا ہی پا سکتا ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ اور جو شخص اللہ کی رضا، دار آخرت اور امت کی بھلائی اور اللہ کی خوشنودی اور سنت حسنہ چاہتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد دونوں خلفاء قائم رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ تمھیں اس کا بدلہ دے گا میرے ہاتھ میں تمہارا بدلہ نہیں۔ اگر میں تمھیں پوری دنیا دے دوں تو یہ تمہارے دین کی قیمت نہیں ہو سکتی اور تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ لہٰذا اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اس کے پاس جو ہے اس کی امید رکھو اور جو تم میں بیعت کو توڑنا پسند کرتا ہے تو میں اس کے لیے اس کو نہیں پسند کرتا اور نہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ تم اس کے عہد کو توڑ دو۔ اور جس چیز کا یہ لوگ مجھے اختیار دے رہے ہیں یہ سب کے سب جھگڑے اور سازش کی باتیں ہیں۔ میں نے اپنے نفس اور اپنے ساتھیوں پر کنٹرول کر رکھا ہے میں نے اللہ کے حکم کا پاس رکھا اور تغییر نعمت اللہ کی طرف سے ہے اور برے طریقے، اختلاف امت اور خونریزی کو میں نے ناپسند کیا۔ یقینا میں تمھیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھ سے حق لو اور ظلم سے بچو اور عدل کو قائم کرو جیسا اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے۔ میں تمھیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس نے عہد و تعاون کو تم پر لازم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34) (الاسراء: ۳۴) ’’اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی