کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 465
امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحابہ کا خیال تھا کہ یہ خط ان کی طرف سے گھڑا گیا تھا۔[1] یہ باغی علی رضی اللہ عنہ کو متہم کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کو خط لکھ کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کی دعوت دی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ اس سے انکار کرتے ہیں اور قسم کھا کر کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے تمھیں کوئی خط نہیں تحریر کیا ہے۔[2] اسی طرح دیگر صحابہ کی طرف خطوط منسوب کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے مختلف صوبہ والوں کو خطوط لکھے، اور انہیں مدینہ پر چڑھائی کی دعوت دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین فساد کا شکار ہے اور متروک ہو چکا ہے لہٰذا مدینہ میں جہاد کرنا دور کے حدود پر رباط سے بہتر ہے۔[3] امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس خبر پر تعلیق چڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ صحابہ پر کذب بیانی ہے۔ یہ جعلی خطوط ان کے نام سے گھڑے گئے تھے، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی طرف سے قاتلین عثمان کے نام جعلی تیار کیے گئے تھے۔ اسی طرح یہ خط بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے جعلی تیار کیا گیا آپ نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا اور نہ آپ کو اس کا علم تھا۔‘‘[4] امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے اس بیان کی تصدیق طبری اور خلیفہ بن خیاط کی ان صحیح روایات سے ہوتی ہے جس میں اکابرین صحابہ علی، عائشہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی جانب سے ان خطوط سے لاعلمی اور تردید مذکور ہے۔[5] وہ مجرم ہاتھ جس نے یہ جعلی اور جھوٹے خطوط ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام سے تیار کیے وہ وہی ہاتھ ہیں جنھوں نے اوّل سے آخر تک فتنہ و بغاوت کی آگ بھڑکائی ہے، اور اس وسیع فساد کو مزین کر کے پیش کیا ہے اور انہی ہاتھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان اباطیل کو رواج دیا کہ انہوں نے ایسا اور ایسا کیا ہے، لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی اور رذیل لوگوں نے اس کو قبول کر لیا اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے نام سے یہ خط بھی گھڑ دیا تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ شہادت کی سعادت سے سرفراز ہوں۔ اس یہودی ابن سبا کی سبائی سازش میں صرف عثمان شہید رضی اللہ عنہ ہی مظلوم نہ تھے، بلکہ ان سے قبل اسلام مظلوم قرار پایا۔ پھر یہ تحریف شدہ تاریخ اور مسلمان نسلیں جنھوں نے اپنی تاریخ کو تحریف شدہ پایا یہ سب مظلوم ہیں۔ اس خبیث یہودی اور اس کے حواری خواہشات اور شہوتوں میں ڈوبے ہوئے کینہ پرور پیروکاروں نے ان سب پر ظلم ڈھایا ہے۔ کیا اسلامی نسلوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ اپنی صحیح تاریخ اور اپنے عظماء کی سیرت کو پہچانیں؟ بلکہ کیا اس دور میں لکھنے والے مؤلفین و مصنّفین اور مقالہ نگاروں کے لیے وقت نہیں آیا کہ اللہ سے ڈریں اور بغیر تحقیق و تدقیق کے نیک و پرہیزگار لوگوں کو متہم کرنے کی جرأت نہ کریں؟ تاکہ وہ بھی اس غلطی کے مرتکب نہ ہوں جس کے دوسرے مرتکب ہوئے ہیں۔[6]
[1] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۶۹) [2] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۵) [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۵) [4] البدایۃ والنہایۃ (۵؍۱۷۵) [5] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۵) [6] عثمان بن عفان الخلیفۃ الشاکر الصابر ص (۲۲۸۔۲۲۹)