کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 463
پر ان کی مہر ثبت تھی۔ ان لوگوں نے جب اس خط کو کھولا تو اس میں ان کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے یا ہاتھ پیر کاٹ دینے کا حکم تھا۔ اس خط کو پڑھ کر یہ لوگ مدینہ واپس پہنچ گئے۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خط سے انکار کیا اور ان سے کہا: دو صورتیں ہیں یا تو دو مسلمانوں کی گواہی قائم کرو یا میں اس اللہ کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ میں نے اس خط کو لکھا ہے اور نہ املاء کرایا ہے اور نہ اس سے متعلق مجھے ادنیٰ علم ہے، اور ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کی طرف سے جعلی خط تحریر کیا جاتا ہے اور اس پر مہر کا نقش بھی لگا دیا جاتا ہے، لیکن ان لوگوں نے آپ کی تصدیق نہ کی۔[2] لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خط جس کے بارے میں باغیوں کا زعم تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے اور اس پر ان کی مہر ثبت ہے اور زکوٰۃ کے اونٹ پر ان کا غلام سوار ہو کر مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کے نام لے جا رہا تھا جس کے اندر یہ فرمان تھا کہ ان باغیوں کو قتل کر دیا جائے یہ خط جعلی اور جھوٹ تھا، عثمان رضی اللہ عنہ کے نام سے اس کو گھڑا گیا تھا، مختلف وجوہ سے اس کا جعلی ہونا ثابت ہوتا ہے: ۱۔ اس جعلی خط کو لے جانے والا بار بار اس مصری قافلے کے ساتھ ہوتا اور دور بھاگتا رہا، وہ ایسا اس لیے کر رہا تھا تاکہ یہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے متعلق شک میں مبتلا ہوں، گویا کہ وہ اپنی زبان حال سے کہہ رہا تھا، میرے پاس تمہارے سلسلہ میں کوئی اہم چیز ہے۔ اگر یہ خط عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوتا تو وہ ان لوگوں سے خوف کھاتا اور ان سے دور رہتا، اور جلدی مصر کے گورنر تک پہنچنے کی کوشش کرتا تاکہ یہ فرمان ان کے سامنے پیش کر دے اور وہ اس کو نافذ کریں۔ ۲۔ عراقیوں کو اس کی اطلاع کیسے ملی، وہ تو مصریوں سے الگ ہو کر عراق جا رہے تھے، یہ جعلی خط مصریوں کو ملا تھا، دونوں کے مابین طویل فاصلہ تھا، عراقی مشرق میں جا رہے تھے اور مصری مغرب میں جا رہے تھے اس کے باوجود دونوں بیک وقت واپس ہو گئے، گویا کہ دونوں کے مابین وقت مقرر تھا یہ بات عقل میں نہیں آسکتی الا یہ کہ جن لوگوں نے یہ خط گھڑا تھا اور اس کے لیے اجرت پر ایک سوار کو مقرر کیا تھا کہ وہ یہ کردار مصریوں کے سامنے ادا کرے انہی لوگوں نے ایک اور سوار کو اجرت پر مقرر کیا ہو کہ وہ عراقیوں کے پاس جائے اور انہیں خبر دے کہ مصری قافلہ نے ایک خط پکڑا ہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصری قافلہ کے قتل سے متعلق ہے۔ اور یہی حجت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف قائم کی تھی فرمایا: اے کوفہ والو! اے بصرہ والو! مصریوں کے ساتھ جو پیش آیا اس کی اطلاع تمھیں کیسے ملی؟ تم کئی منزلیں طے کر چکے تھے پھر ہماری طرف واپس مڑ گئے۔[3]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۷۹) [2] فتنہ مقتل عثمان (۵؍۱۳۲)، البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۹۱) [3] تاریخ الطبری (۵؍۳۵۹)