کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 450
اعتماد کرنا اور اس کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرنا جائز نہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو اب تم لوگ مجھے مشورہ دو کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ من گھڑت باتیں ہیں جو خفیہ طور سے پردے کے پیچھے گھڑی جاتی ہیں، اور پھر ناسمجھوں کے کان میں ڈال دی جاتی ہیں، اور وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں انجام کار مجلسوں اور محفلوں میں اس پر گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کا علاج کیا ہے؟ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اس طرح کے لوگوں کو طلب کیا جائے اور پھر جس جس سے یہ باتیں نکلتی ہیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! جب آپ لوگوں کو ان کے حقوق ادا کرتے ہیں تو ان سے بھی اپنے حقوق وصول کیجیے، یہ ان کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے مجھے ولایت سونپی تو میں ایسے لوگوں پر والی ہوں جن کی طرف سے آپ کے پاس خیر ہی کی خبریں پہنچتی ہیں، اور یہ دونوں حضرات (عبداللہ بن سعدو عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہما ) اپنے اپنے صوبوں سے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسی صورت میں کیا مشورہ ہے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: حسن ادب۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے عمرو سے فرمایا: اے عمرو تمہاری کیا رائے ہے؟ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ نرم پڑ گئے ہیں اور ان سے خوش اور راضی ہیں حالاں کہ جتنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ کرتے تھے اس سے زیادہ آپ کرتے ہیں۔ تو میری رائے ہے کہ آپ ان کے ساتھ اپنے دونوں ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) کا طریقہ اختیار کیجیے، سختی کی جگہ سختی کیجیے اور نرمی کے موقع پر نرمی کیجیے۔ ان لوگوں کے ساتھ سختی مناسب ہے جو لوگوں کو شر پہنچائیں اور نرمی ان لوگوں کے لیے مناسب ہے جو لوگوں کے خیر خواہ ہوں۔ آپ سب ہی کے ساتھ نرمی برتتے ہیں۔ ان مشوروں کو سننے کے بعد امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: آپ حضرات نے جو مشورہ دیے، میں نے سب کو سنا، ہر امر کا ایک دروازہ ہے جہاں سے آیا جاتا ہے اور یہ امر جس کا اس امت پر خطرہ ہے ہو کر رہے گا۔ یقینا اس کا وہ دروازہ جسے بند کر دیا جاتا ہے اس کو نرمی، توجہ اور موافقت کھول دے گی، الا یہ کہ اللہ کی حدود میں ہو، جس میں کوئی عیب نہیں لگا سکتا۔ پس اگر کسی شے نے اس کو بند کر دیا تو اللہ کی قسم وہ ضرور کھولا جائے گا، اور کسی کا میرے خلاف کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ لوگوں کو خیر