کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 444
فسادی سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیتے ہیں: یزید بن قیس اور اشترنخعی ایک ہزار فسادیوں کے ساتھ مدینہ کے راستہ میں جرعہ نامی مقام پر جا پہنچے، یہ لوگ وہاں ڈٹے ہوئے تھے۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ مدینہ سے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے واپس ہوتے ہوئے وہاں پہنچے۔ ان لوگوں نے آپ سے کہا: تم جہاں سے آئے ہو وہاں واپس چلے جاؤ، ہمیں تمہاری ضرورت نہیں اور ہم تمھیں کوفہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، جاؤ عثمان کو خبر دے دو کہ ہم تمھیں بحیثیت والی نہیں چاہتے، اور ہم عثمان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمہاری جگہ ابو موسیٰ اشعری کو والی مقرر کر دیں۔ سعید رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: مجھ سے یہ کہنے کے لیے تم ایک ہزار افراد ساتھ لے کر کیوں نکلے، تمہارے لیے صرف اتنا کافی تھا کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کو اپنا یہ مطالبہ دے کر امیر المومنین کے پاس بھیج دیتے، اور کسی ایک شخص کو راستہ میں کھڑا کر دیتے تاکہ وہ مجھے اس کی اطلاع دے دیتا، کیا جنھیں عقل ہو وہ ایک شخص کے مقابلہ میں ایک ہزار نکل سکتے ہیں؟[1] سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حکمت کا تقاضا ہے کہ ان کے منہ نہ لگا جائے، اور فتنہ کی آگ نہ بھڑکائی جائے بلکہ اس کو ٹھنڈا کیا جائے یا کم از کم اس کو مؤخر رکھا جائے۔ اور یہی رائے کوفہ میں ابو موسیٰ اشعری، عمرو بن حریث اور قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہم کی تھی۔[2] سعید بن العاص رضی اللہ عنہ مدینہ واپس ہو گئے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کو صورت حال سے مطلع کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ آخر ان لوگوں کا کیا مطالبہ ہے؟ کیا انہوں نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ کیا خلیفہ کے خلاف خروج کیا ہے؟ اور عدم اطاعت کا اعلان کیا ہے؟ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ بحیثیت والی مجھے نہیں چاہتے ہیںبلکہ میری جگہ دوسرا والی چاہتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: وہ کس کو بحیثیت والی چاہتے ہیں؟ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ابو موسیٰ اشعری کو چاہتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے ہم نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو والی مقرر کر دیا۔ اللہ کی قسم! ہم ان کے لیے کوئی عذر اور حجت نہیں چھوڑیں گے، اور جیسا ہم سے مطلوب ہے ہم ان پر صبر کریں گے یہاں تک کہ ہم ان کے حقیقی مقاصد کو جان لیں۔ پھر امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ پر بحیثیت والی تقرری سے متعلق خط تحریر کیا۔[3] ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تقرری سے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کا خط پہنچنے سے قبل کوفہ کی مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ موجود تھے، انہوں نے حالات کو کنٹرول کرنے اور عوام کو پر سکون رکھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، اس لیے کہ سبائی عوام پر غالب تھے اور انہیں برانگیختہ کر رکھا تھا، وہ عقل و منطق کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۳۸) [2] الخلفاء الراشدون؍ الخالدی ص (۱۴۰) [3] التاریخ الطبری (۵؍۳۳۹)