کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 423
کی چکی چلنے والی ہے، عثمان کے لیے خوشخبری ہے اگر وہ مر جائے اور اس چکی کو حرکت نہ دے۔‘‘[1]
ابن سبا نے اپنا مرکز مصر کو بنایا، اور وہاں سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی تحریک کو منظم کرنا شروع کیا، اور فتنہ کو بھڑکانے کے لیے لوگوں کو مدینہ کی طرف خروج کرنے پر ابھارنا شروع کیا، اس دعویٰ کے ساتھ کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت نا حق لی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی علی رضی اللہ عنہ کی کرسی پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔[2]
پھر انہیں جعلی خطوط سے دھوکا دیا کہ یہ اکابرین صحابہ کی طرف سے خطوط آئے ہیں یہاں تک کہ جب یہ دیہاتی مدینہ پہنچے اور صحابہ سے ملے تو ان کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی، بلکہ انہوں نے ان خطوط سے انکار کیا جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکانے کے لیے پیش کیے گئے تھے۔[3] ان لوگوں نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور سب کے قدر داں ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے،جو باتیں آپ کی طرف منسوب کی گئی تھیں، اس سے متعلق ان سے مناظرہ کیا، اور ان کی افتراء پردازیوں کا پردہ چاک کیا، اور اپنی کارروائیوں کی صداقت واضح کی، یہاں تک کہ ان آئے ہوئے دیہاتیوں میں ایک شخص مالک اشترنخعی نے کہا: شاید ان کے اور تمہارے ساتھ جعل سازی کی گئی ہے۔[4]
امام ذہبی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن سبا کو مصر میں فتنہ کو برانگیختہ کرنے والا، گورنروں اور افسران پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف غم و غصہ اور اختلافات و بغاوت کا بیج بونے والا قرار دیا ہے۔[5]
اس تحریک میں ابن سبا تنہا نہ تھا بلکہ وہاں سازشوں اور فسادیوں کا ایک نیٹ ورک کام کر رہا تھا اور مکر و فریب، جعل سازی، دھوکہ دہی کے اسالیب اور بدوؤں اور قراء کی بھرتی کا ایک جال بچھایا گیا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوائیوں کے ٹوٹ پڑنے کے اسباب میں سے عبداللہ بن سبا کا ظہور، اس کا مصر جانا اور لوگوں کے درمیان اپنی من گھڑت باتوں کو پھیلانا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے مصری فتنہ میں پڑ گئے۔[6]
سلف و خلف کے مشہور علماء و مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابن سبا نے مسلمانوں کے درمیان ایسے عقائد و افکار اور سبائی منصوبے ظاہر کیے تاکہ مسلمانوں کو ان کے دین اور امام وقت کی اطاعت سے پھیر دے، اور ان کے درمیان اختلاف و افتراق پیدا کر دے، اس کی اس تحریک سے فسادی لوگ اس کے ساتھ جمع ہو گئے اور معروف سبائی فرقہ وجود پذیر ہوا جو اس فتنہ کا بنیادی سبب بنا جس کے نتیجہ میں امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے۔
[1] تاریخ الطبری (۵؍۳۵۰)
[2] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۰)، تاریخ الطبری (۵؍۳۴۸)
[3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۰)، تاریخ الطبری (۵؍۳۶۵)
[4] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۱)
[5] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۸)
[6] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۶۷۔۱۶۸)