کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 411
ہوئے اور یہ رپورٹ پیش کی کہ صورت حال بالکل صحیح ہے، افواہیں غلط ہیں، کوئی قابل اعتراض چیز نہیں دیکھی گئی، اور عوام و خواص کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔[1] اسلامی فتوحات کا رک جانا: عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں طبعی اور بشری رکاوٹوں کے سامنے اسلامی فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور آگے نہ بڑھا خواہ فارس کی سمت میں ہو یا شام کی سمت میں یا افریقہ (تونس) کی جہت میں، جس کے نتیجہ میں مال غنیمت کی آمدنی بند ہو گئی۔ دیہاتی یہ سوال کرنے لگے کہ مال غنیمت کا کیا ہوا اور مفتوحہ زمینیں کدھر گئیں؟ انہیں یہ لوگ اپنا حق سمجھتے تھے۔[2] اور یہ باطل افواہیں لوگوں میں پھیلیں عثمان رضی اللہ عنہ کو متہم قرار دیا گیا کہ وہ ان مفتوحہ زمینوں میں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق تصرف کر رہے ہیں، اور جس کو چاہتے ہیں جاگیر عطا کر دیتے ہیں، اس پروپیگنڈہ کا دیہاتیوں پر زبردست اثر ہوا کیوں کہ ان کے پاس کوئی کام نہ تھا، اپنے اوقات کا ایک حصہ کھانے پینے اور سونے میں خرچ کرتے تھے اور ایک حصہ ملکی سیاست پر تبصرہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے تصرفات سے متعلق سبائیوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں میں صرف کرتے۔ اس صورت حال کا احساس و ادراک عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو ہوا، چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اپنے گورنروں سے مشورہ طلب کیا۔ آپ اپنے گورنروں سے برابر مشورہ کرتے رہتے تھے ، اور انہیں حکم دیتے کہ وہ اس سلسلہ میں پوری کوشش کریں، اور اپنے مشوروں سے مطلع کرتے رہیں۔ تو عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ لوگوں کو جہاد کا حکم دیں اور انہیں جہاد میں اس قدر مشغول کر دیں کہ انہیں سر کھجانے کا موقع نہ رہے۔[3] فکر و نظر کے اس ماحول میں وہ افراد جو غزوات کے عادی تھے اور دین کو کچھ زیادہ نہیں سمجھا تھا اور اس کی فہم و بصیرت سے عاری رہے، ان سے ہر برائی کی توقع کی جا سکتی ہے ان دیہاتیوں کو کوئی بھی بھڑکا سکتا ہے، اور پھر فتنہ و فساد برپا کرنے کے لیے وہ بھڑک سکتے ہیں، اور بالفعل ایسا ہی ہوا، چنانچہ فتوحات کے رک جانے کی وجہ سے ان دیہاتیوں نے فتنہ برپا کرنے میں حصہ لیا، اور اس کے پھوٹ پڑنے کا سبب بنے۔[4] پرہیز گاری و ورع کا غلط مفہوم: شریعت اسلامیہ میں ورع اور پرہیز گاری اچھی چیز ہے، ورع کہتے ہیں کہ انسان غیر مباح کام میں واقع ہونے کے خوف سے مباح کام کو چھوڑ دے۔ چنانچہ ورع درحقیقت اللہ کی محبت میں اور اللہ کی خاطر مباحات سے رک جانے کا نام ہے۔ورع ایک انفرادی چیز ہے، اس کے لیے یہ تو درست ہے کہ اپنے نفس سے اس کا مطالبہ
[1] تاریخ ابن خلدون (۲؍۴۷۷) [2] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۱؍۳۴۴) [3] تاریخ الطبری (۲؍۳۴۰) [4] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ ص (۳۵۳)