کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 409
ہے کہ یہ جرأ ت میرے خلاف تمہارے اندر کہاں سے آئی ہے یہ جرأت تمہارے اندر میری بردباری سے پیدا ہوئی ہے۔[1] جب آپ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی حقیقت لوگوں کے سامنے آئی اور ان کے راز نمایاں ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے تمام اعتراضات کے شافی و کافی جوابات صحابہ کرام اور دیگر لوگوں کے سامنے دیے تو مسلمان اس بات پر بضد ہوئے کہ ان لوگوں کو قتل کر دیا جائے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے حلم و بردباری کی وجہ سے یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ ہم ان کو معاف کر دیں گے، اور قبول کریں گے، اور اپنی کوشش بھر ان کو سمجھائیں گے، اور ہم کسی پر حد جاری نہیں کریں گے جب تک کسی واجب حد عمل کا ارتکاب نہ کرے اور کفر ظاہر نہ کرے۔[2] مدینہ سے اکابرین کا منتقل ہو جانا: عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین میں سے قریشی اکابرین پرپابندی لگا رکھی تھی کہ مدینہ سے منتقل نہیں ہو سکتے، بغیر اجازت اور متعین مدت کے وہ مدینہ سے باہر نہیں جا سکتے۔ اس پابندی کی وجہ سے لوگ آپ سے نالاں ہوئے، اور یہ باتیں عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچیں تو آپ نے خطاب فرمایا: ’’خبردار میں نے اسلام میں اونٹ کا طریقہ جاری کیا ہے جو چھوٹا بچہ ہوتا ہے پھر دانتہ ہوتا ہے پھر چار دانت والا ہوتا ہے پھر چھ دانت والا ہوتا ہے پھر ناب (کچلی) آتی ہے اور نو سالہ جوان ہو جاتا ہے۔ خبردار! جوانی کے بعد کمی ہی رونما ہوتی ہے۔ خبردار ہو جاؤ اسلام جوان ہو چکا ہے۔ خبردار قریش کے لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے دوسرے بندوں کے علاوہ وہی اللہ کے مال کو جمع کریں۔ خبردار جب تک ابن خطاب زندہ ہے یہ نہیں ہو سکتا، میں حرہ کی گھاٹیوں کے دروازے پر کھڑا ہوں اور قریش کے گلے اور کمر کو پکڑ کر جہنم کی آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں۔‘‘[3] عمر رضی اللہ عنہ ان صحابہ کے سلسلہ میں یہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ مبادا وہ مفتوحہ شہروں میں پھیلیں اور مال و جائداد میں توسع کے شکار ہوں، چنانچہ جب ان مہاجرین میں سے کوئی آپ سے باہر جانے کے لیے اجازت طلب کرنے آتا تو آپ اس سے کہتے: جو غزوات تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہیں وہ تمہارے لیے آج کے غزوات سے بہتر ہیں، خبردار نہ تم دنیا کو دیکھو اور نہ تمھیں دنیا ہی دیکھے۔[4] لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ سے نکلنے کی اجازت دے دی، اور ان کے ساتھ نرمی برتی۔ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب عثمان رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت سنبھالی تو مہاجرین کو چھوڑ دیا، وہ شہروں میں پھیل گئے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوئے، لہٰذا آپ ان کے
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۵۰) [2] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۱؍۳۶۴) [3] تاریخ الطبری (۵؍۴۱۳) [4] تاریخ الطبری (۵؍۴۱۴)