کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 387
العصر الراشدی‘‘ اور ’’العواصم من القواصم‘‘ اور ’’المنتقی‘‘ وغیرہ پر محب الدین خطیب کی تعلیقات وغیرہ کتب و رسائل ہیں جو اس منہج پر تیار کیے گئے ہیں۔ اس بیان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی کتب و تصنیفات کا پایا جانا ضروری ہے جو ان باطل خیالات اور غلطیوں کی تردید کریں۔ اسلامی تاریخ اور مقام صحابہ کو مسخ کرنے والوں کی تردید اسی وقت ممکن ہے جب ان تاریخی واقعات اور اخبار و روایات کی جرح و تعدیل اور تصحیح و تضعیف کی میزان پر چھانٹ پھٹک کی جائے اور ان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔[1] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب بدعتی سر اٹھائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر باطل اتہام باندھیں، تو ایسی صورت میں دفاع اور علم و عدل کے ساتھ ان کے دلائل کا ابطال ضروری ہے۔[2] امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جن کتابوں کے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کذب بیانی اور افترا پردازی کی گئی ہے ان کو نظر آتش کر دیا جائے۔ فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین رونما ہونے والے اختلافات اور قتال کے سلسلہ میں یہ ثابت ہے کہ لب کشائی کرنے سے اجتناب لازم ہے۔ اور کتب اور دواوین کے اندر برابر اس طرح کی روایات آتی ہیں جن میں سے اکثر منقطع و ضعیف اور بعض کذب محض ہیں، اور یہ کتب ہمارے اور ہمارے علماء کے ہاتھوں میں ہیں، لہٰذا ان کو سمیٹ دینا اور چھپا دینا چاہیے بلکہ ان کو دریا برد کر دیا جائے تاکہ دل صاف ہو جائیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت اور ان کے لیے ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کی دعا کا سلسلہ باقی رہے۔[3] لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کی ان کتابوں کو نذر آتش کرنے کی تجویز ممکن نہیں رہی، کیوں کہ یہ کتابیں پھیل چکی ہیں اور بہت سے نشریاتی ادارے اور گندے عزائم کے لوگ ان کتابوں کو شائع کر رہے ہیں، لہٰذا اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا کہ ان کتابوں پر بحث و تحقیق کی جائے، ان کی غلطیوں اور کذب بیانی کو واضح کیا جائے تاکہ مسلمانوں کی نسلیں عقیدہ و عمل میں انحراف سے محفوظ رہیں۔[4] فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ اور اس پر مرتب ہونے والے واقعات کے مطالعہ و تحقیق کی اہمیت: اس فتنہ کے حقیقی اسباب کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اس پر مرتب ہونے والے واقعات کی تحقیق اور اس کے مطالعہ کی اہمیت واضح ہے خواہ یہ اسباب داخلی ہوں یا خارجی، اور پھر ان اسباب میں سے ہر ایک کا اس فتنہ میں کس قدر حصہ ہے اور کیا اس کے علاوہ اور اسباب ہیں جنھیں اس ضمن میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے
[1] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۸۳) [2] منہاج السنۃ (۳؍۱۹۲) [3] سیر اعلام النبلاء (۱۰؍۹۲) [4] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۸۴)