کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 383
(۱) فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعات اور اس کے نتیجہ میں جنگ جمل و صفین وغیرہ کے حالات کی تحقیق کی اہمیت، اس کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خبر دینے کی حکمتیں فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ اور اس کے نتیجہ میں جنگ جمل و صفین کے حالات کی تحقیق کی اہمیت: اکثر سلف اور علمائے امت سے یہی منقول ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کی تفاصیل میں بحث و کرید سے توقف کیا جائے، اور اس کو اللہ کے حوالے چھوڑ کر ان کے لیے اللہ کی رضا کی دعا کی جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع اور زبان درازی سے پرہیز کیا جائے کیوں کہ اس سے شریعت پر طعن لازم آتا ہے اس وجہ سے کہ وہی اس شریعت کے حاملین ہیں، اور انہی کے واسطہ سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے، چنانچہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اہل صفین سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اس خون سے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے تو میں اپنی زبان کو اس میں ملوث کرنا پسند نہیں کرتا۔ [1] اور بعض اسلاف سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو جواب میں یہ آیت کریمہ پیش کر دی: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (134) (البقرۃ: ۱۳۴) ’’یہ جماعت تو گزر چکی جو انہوں نے کیا وہ ان کے لیے ہے اور جو تم کرو گے وہ تمہارے لیے ہے ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔‘‘ اس ممانعت کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کا خوف، تاکہ اس سے اللہ کا غضب حاصل نہ ہو، اور جب یہ سبب زائل ہو جائے تو پھر بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات سے متعلق ایسی تحقیق جس سے ان پر مطلقاً طعن و تشنیع لازم نہ آئے، تو پھر کوئی حرج نہیں کہ اس کے اسباب و دوافع، تفصیلات و نتائج، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کے معاشرہ پر اس کے اثرات سے
[1] حلیۃ الاولیاء (۹؍۱۱۴)، عون المعبود (۱۲؍۲۷۴)