کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 378
۱ جس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے ابوذر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اس وقت ابن سبا سے ان کے متاثر ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہ کیا، بلکہ صرف اتنی بات پر اکتفا کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے مجھے عاجز کر دیا ہے اور ان کا معاملہ ایسا ایسا ہے۔[1] ۲۔ علامہ ابن کثیر نے معاویہ اور ابوذر رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف کو اپنی تاریخ میں مختلف مقام پر ذکر کیا ہے، لیکن کہیں بھی ابن سبا کا ذکر اس ضمن میں نہیں کیا ہے۔[2] ۳۔ صحیح بخاری میں وہ حدیث وارد ہے جس میں معاویہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے درمیان واقع شدہ اختلاف کی طرف اشارہ ہے، لیکن اس میں دور و نزدیک کہیں سے بھی ابن سبا کیطرف اشارہ نہیں ہے۔[3] ۴۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت سے متعلق مشہور کتابوں میں معاویہ اور ابوذر رضی اللہ عنہما کی گفتگو اور پھر ربذہ میں ان کا اقامت پذیر ہونا ضرور مذکور ہے، لیکن ابوذر رضی اللہ عنہ پر ابن سبا کی تاثیر کا کوئی ذکر نہیں۔[4] ۵۔ بلکہ تاریخ طبری میں یہ خبر مذکور ہوئی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مدافعین نے ابن سبا کے شام جانے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملاقات کا ذکر کیا ہے۔[5] لیکن یہ خبر جسے طبری نے بیان کیا ہے جھوٹ ہے، کیوں کہ تاریخی واقعات اس کی تکذیب و تردید کرتے ہیں: ٭ مؤرخین کا بیان ہے کہ ابن سبا نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کیا، وہ یمن کا یہودی تھا، اس نے اپنی تخریبی سرگرمی حجاز میں شروع کی لیکن انہوں نے کسی سے ملاقات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کسی سے ملا ہو یا اہل حجاز میں سے کوئی اس سے ملا ہو۔ ٭ اس کا اوّل ظہور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے گورنر بننے کے تین سال بعد بصرہ میں ہوا۔ اور عبداللہ بن عامر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے بعد ۲۹ھ میں بصرہ کے گورنر مقرر ہوئے تھے، تو اس حساب سے بصرہ میں اس کا ظہور ۳۲ھ میں قرار پاتا ہے، اور ابن عامر رضی اللہ عنہ نے اس کو بصرہ سے عرفہ کے دن جلا وطن کر دیا تھا۔ ٭ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن سبا اس کے بعد بصرہ سے کوفہ روانہ ہوا اور وہاں معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔ اب ضروری ہے کہ ایک مدت وہ شام میں ٹھہرا ہو گا، تاکہ لوگوں کے حالات اور افکار و نظریات سے واقفیت حاصل کرے، اور اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے منصوبہ تیار کرے۔ اور بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ ۳۳ھ کے اواخر میں اس کی دعوت کا ظہور شام میں ہوا تو قارئین خود فیصلہ کریں کہ ابوذر اور معاویہ رضی اللہ عنہما
[1] تاریخ الطبری (۵؍۲۸۵) [2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۷۰۔۱۸۰) [3] البخاری: (۱۴۰۶) [4] عبداللّٰہ بن سبا و اثرہ فی احداث الفتنۃ ؍ سلیمان العودۃ ، ص (۵۱) [5] تاریخ الطبری (۵؍۲۸۵)