کتاب: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے - صفحہ 374
٭…ابوذر رضی اللہ عنہ کے مدینہ سے علیحدہ ہو جانے، یا عثمان رضی اللہ عنہ کا ان سے مدینہ سے باہر چلے جانے کا مطالبہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ مختلف صوبوں میں فتنہ نے اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا تھا، اور معاندین نے من گھڑت اقوال پھیلانے شروع کر دیے تھے، اور وہ لوگ ابوذر رضی اللہ عنہ کے موقف و رائے سے اپنے پروپیگنڈہ میں استفادہ کرنا چاہتے تھے جب کہ ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھے، لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ نے جلب منفعت پر دفع مفسدت کو مقدم کر نا مناسب سمجھا، ابوذر رضی اللہ عنہ کے مدینہ میں باقی رہنے کی صورت میں عظیم مصلحت ضرور تھی کہ طلبہ کے درمیان ان کے علم کی نشر و اشاعت ہوتی، لیکن مال کے سلسلہ میں ان کے شدید موقف کی وجہ سے جو مفسدت برپا ہوتی اس سے بچنے کو عثمان رضی اللہ عنہ نے ترجیح دی کیوں کہ جلب منفعت پر دفع مضرت مقدم ہے۔
٭…ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوذر رضی اللہ عنہ زاہد شخص تھے، وہ جب ایسے لوگوں کو دیکھتے جو فراوانی آنے کے بعد لباس و سواری میں توسع سے کام لے رہے ہیں تو ان پر نکیر کرتے، اور چاہتے کہ یہ سب کچھ لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے حالاں کہ شرعاً یہ چیز لازم نہیں تھی اسی وجہ سے ان کے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان شام میں اختلاف ہوا، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ چلے آئے، وہاں لوگوں نے انہیں گھیر لیا سوال و جواب شروع ہو گیا یہاں بھی ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا سخت موقف اختیار کیا، اس صورت حال میں عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کاش آپ لوگوں سے علیحدہ ہو جائیں یعنی آپ جس موقف پر ڈٹے ہیں اس صورت میں لوگوں کے ساتھ آپ کا رہنا مناسب نہیں ہے… اور جو بھی ابوذر رضی اللہ عنہ کی رائے پر قائم ہو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ معاشرہ سے دور رہ کر اور تنہائی کی زندگی بسر کرے اور اگر معاشرہ میں رہتا ہے تو جس چیز کو شریعت نے حرام نہیں کیا اس کو اختیار کرنے میں آزاد چھوڑے، لہٰذا زہد و فضل کے ساتھ وہ مدینہ سے الگ ہو گئے اور بہت سے فضلاء صحابہ کو چھوڑ دیا وہ سب ہی خیر و برکت اور فضائل پر قائم رہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کی حالت افضل رہی تمام لوگ اس کی استطاعت نہیں رکھ سکتے تھے، اگر سبھی ایسا کرتے تو ہلاکت و تباہی سے دوچار ہو جاتے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے لوگوں کے لیے مراتب مقرر کر رکھے ہیں۔[1]
٭…ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابودرداء اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف رونما ہوا، ابودرداء رضی اللہ عنہ زاہد فاضل اور شام کے قاضی تھے، جب انہوں نے حق کے سلسلہ میں شدت اختیار کی اور سب کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے طریقہ پر چلانا چاہا تو لوگ برداشت نہ کر سکے، اور انہیں منصب قضاء سے معزول کر دیا اور وہ مدینہ واپس چلے آئے۔ یہ سب مصالح کی باتیں ہیں، اس سے دین میں کوئی قدح لازم نہیں آتی، اور کسی صورت میں کسی مسلمان کا مقام و مرتبہ اس سے متاثر نہیں ہوتا۔ ابودرداء اور ابوذر رضی اللہ عنہما ہر عیب سے بری ہیں، اور عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ بری اور ہر اتہام سے پاک ہیں، لہٰذا جو یہ بیان کرے کہ انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو جلا وطن کیا، اور اس کے لیے وجوہ و اسباب بیان کرے، یہ سب باطل اور من گھڑت باتیں ہیں۔[2]
[1] العواصم من القواصم ص (۷۷)
[2] العواصم من القواصم ص (۷۹)